پیر، 13 اکتوبر، 2025

غزہ میں دغمش قبیلے اور حماس کے درمیان خونریز تصادم: کون ہیں یہ مسلح قبائل اور کیوں اُٹھے؟

 

غزہ میں دغمش قبیلے اور حماس کے درمیان خونریز تصادم: کون ہیں یہ مسلح قبائل اور کیوں اُٹھے؟

غزہ ایک بار پھر خونریزی کا شکار ہے، لیکن اس بار لڑائی اسرائیلی بمباری یا سرحد پار حملے کی وجہ سے نہیں، بلکہ داخلی محاذ پر ہوئی۔ غزہ شہر کے جنوب میں حماس کی سکیورٹی فورسز اور دغمش قبیلے کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تصادم اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے بعد غزہ میں ہونے والا سب سے پرتشدد داخلی تصادم تصور کیا جا رہا ہے۔

جھڑپیں کہاں اور کیسے شروع ہوئیں؟

عینی شاہدین کے مطابق، جنوبی غزہ میں اُردن کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک اسپتال کے قریب، حماس کے نقاب پوش جنگجوؤں اور دغمش قبیلے کے عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ یہ لڑائی بعد ازاں شدت اختیار کر گئی۔

بتایا گیا ہے کہ تل الحوا کے علاقے میں اس وقت جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں، جب حماس کے تقریباً 300 مسلح جنگجوؤں نے ایک رہائشی عمارت پر حملہ کیا جہاں دغمش قبیلے کے مسلح افراد مورچہ زن تھے۔ یہ حملہ مبینہ طور پر قبیلے کے ایک اہم رہنما کی گرفتاری کی کوشش کے سلسلے میں کیا گیا۔

ہلاکتوں کی تفصیل

غزہ کی وزارتِ داخلہ کے مطابق، حماس کے سکیورٹی یونٹ نے غزہ شہر کے اندر دغمش قبیلے کی مسلح ملیشیا کو گھیرنے کی کوشش کی، جس دوران لڑائی بھڑک اٹھی۔ اس دوران حماس کے 8 سکیورٹی اہلکار اور دغمش قبیلے کے 19 ارکان مارے گئے۔

دغمش قبیلہ کون ہے؟ اور اتنا طاقتور کیوں ہے؟

دغمش قبیلہ غزہ کے طاقتور ترین قبائلی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ قبیلہ نہ صرف مسلح ہے بلکہ اس کا دائرہ اثر کئی سالوں پر محیط ہے۔ یہ ماضی میں اغوا برائے تاوان، غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ، اور عسکری کارروائیوں میں بھی ملوث رہا ہے۔

  • 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاڈ شالٹ کے اغوا میں دغمش خاندان کے عناصر کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔

  • اسی طرح غیر ملکی صحافی ایلن جانسٹن کے اغوا کا الزام بھی انہی پر لگا تھا۔

  • دغمش قبیلہ مختلف مواقع پر خودمختار طور پر کارروائیاں کرتا رہا ہے، اور مقامی سطح پر ان کا رسوخ خاصا گہرا ہے۔

یہ قبیلہ روایتی قبائلی طاقت، اسلحہ، اور غیر رسمی مالی وسائل کے ذریعے ایک خودمختار قوت کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی وفاداریاں ہمیشہ حماس یا دیگر سیاسی دھڑوں سے نہیں رہیں۔

تنازع کی ممکنہ وجوہات

ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ جھڑپوں کی جڑ میں اختیارات کا ٹکراؤ، اثر و رسوخ کی جنگ، اور امدادی سامان کی تقسیم پر قبضہ شامل ہو سکتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، حماس نے دغمش قبیلے پر اسرائیل کے ساتھ مبینہ تعاون کا الزام بھی عائد کیا، جس کے بعد اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔

کیا یہ ایک نیا فیز ہے؟

یہ جھڑپیں ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہیں:
کیا غزہ میں حماس کی گرفت کمزور ہو رہی ہے؟
کیا مقامی قبائل اور ملیشیائیں دوبارہ سر اُٹھا رہی ہیں؟

اگرچہ حماس بدستور غزہ میں سب سے بڑی عسکری و سیاسی طاقت ہے، مگر داخلی اختلافات اور مقامی ملیشیاؤں کے ابھرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ خطے میں سیاسی و عسکری توازن میں تبدیلی آ رہی ہے۔


نتیجہ

دغمش قبیلے کے خلاف حماس کی یہ حالیہ کارروائی صرف ایک قبائلی تصادم نہیں بلکہ غزہ میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کا اشارہ بھی ہو سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر اسی نوعیت کے مزید تصادم سامنے آتے ہیں، تو یہ خطے میں موجودہ اقتدار کے ڈھانچے کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن سکتے ہیں۔

غزہ میں دغمش قبیلے اور حماس کے درمیان خونریز تصادم: کون ہیں یہ مسلح قبائل اور کیوں اُٹھے؟

غزہ ایک بار پھر خونریزی کا شکار ہے، لیکن اس بار لڑائی اسرائیلی بمباری یا سرحد پار حملے کی وجہ سے نہیں، بلکہ داخلی محاذ پر ہوئی۔ غزہ شہر کے جنوب میں حماس کی سکیورٹی فورسز اور دغمش قبیلے کے مسلح جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ تصادم اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے بعد غزہ میں ہونے والا سب سے پرتشدد داخلی تصادم تصور کیا جا رہا ہے۔

جھڑپیں کہاں اور کیسے شروع ہوئیں؟

عینی شاہدین کے مطابق، جنوبی غزہ میں اُردن کے زیرِ انتظام چلنے والے ایک اسپتال کے قریب، حماس کے نقاب پوش جنگجوؤں اور دغمش قبیلے کے عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا۔ یہ لڑائی بعد ازاں شدت اختیار کر گئی۔

بتایا گیا ہے کہ تل الحوا کے علاقے میں اس وقت جھڑپیں شدت اختیار کر گئیں، جب حماس کے تقریباً 300 مسلح جنگجوؤں نے ایک رہائشی عمارت پر حملہ کیا جہاں دغمش قبیلے کے مسلح افراد مورچہ زن تھے۔ یہ حملہ مبینہ طور پر قبیلے کے ایک اہم رہنما کی گرفتاری کی کوشش کے سلسلے میں کیا گیا۔

ہلاکتوں کی تفصیل

غزہ کی وزارتِ داخلہ کے مطابق، حماس کے سکیورٹی یونٹ نے غزہ شہر کے اندر دغمش قبیلے کی مسلح ملیشیا کو گھیرنے کی کوشش کی، جس دوران لڑائی بھڑک اٹھی۔ اس دوران حماس کے 8 سکیورٹی اہلکار اور دغمش قبیلے کے 19 ارکان مارے گئے۔

دغمش قبیلہ کون ہے؟ اور اتنا طاقتور کیوں ہے؟

دغمش قبیلہ غزہ کے طاقتور ترین قبائلی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ قبیلہ نہ صرف مسلح ہے بلکہ اس کا دائرہ اثر کئی سالوں پر محیط ہے۔ یہ ماضی میں اغوا برائے تاوان، غیر قانونی اسلحے کی اسمگلنگ، اور عسکری کارروائیوں میں بھی ملوث رہا ہے۔

  • 2006 میں اسرائیلی فوجی گیلاڈ شالٹ کے اغوا میں دغمش خاندان کے عناصر کا ہاتھ بتایا گیا تھا۔

  • اسی طرح غیر ملکی صحافی ایلن جانسٹن کے اغوا کا الزام بھی انہی پر لگا تھا۔

  • دغمش قبیلہ مختلف مواقع پر خودمختار طور پر کارروائیاں کرتا رہا ہے، اور مقامی سطح پر ان کا رسوخ خاصا گہرا ہے۔

یہ قبیلہ روایتی قبائلی طاقت، اسلحہ، اور غیر رسمی مالی وسائل کے ذریعے ایک خودمختار قوت کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی وفاداریاں ہمیشہ حماس یا دیگر سیاسی دھڑوں سے نہیں رہیں۔

تنازع کی ممکنہ وجوہات

ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ جھڑپوں کی جڑ میں اختیارات کا ٹکراؤ، اثر و رسوخ کی جنگ، اور امدادی سامان کی تقسیم پر قبضہ شامل ہو سکتا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، حماس نے دغمش قبیلے پر اسرائیل کے ساتھ مبینہ تعاون کا الزام بھی عائد کیا، جس کے بعد اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔

کیا یہ ایک نیا فیز ہے؟

یہ جھڑپیں ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہیں:
کیا غزہ میں حماس کی گرفت کمزور ہو رہی ہے؟
کیا مقامی قبائل اور ملیشیائیں دوبارہ سر اُٹھا رہی ہیں؟



اگرچہ حماس بدستور غزہ میں سب سے بڑی عسکری و سیاسی طاقت ہے، مگر داخلی اختلافات اور مقامی ملیشیاؤں کے ابھرنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ خطے میں سیاسی و عسکری توازن میں تبدیلی آ رہی ہے۔


نتیجہ

دغمش قبیلے کے خلاف حماس کی یہ حالیہ کارروائی صرف ایک قبائلی تصادم نہیں بلکہ غزہ میں طاقت کے بدلتے ہوئے توازن کا اشارہ بھی ہو سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر اسی نوعیت کے مزید تصادم سامنے آتے ہیں، تو یہ خطے میں موجودہ اقتدار کے ڈھانچے کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج بن سکتے ہیں۔

جمعرات، 9 اکتوبر، 2025

گلگت میں فرقہ واریت کو جنم دینے والے امن سے پریشان

 گلگت میں فرقہ واریت کو جنم دینے والے امن سے پریشان

ڈرامہ بازی جاری ،پمپ ،آغاخان ہائر سیکنڈری ، سی سی پی او کی جگہوں سے سی سی ٹی وی کیمرے کا فوٹیج غائب کر نے والے ہی اسل دہشتگر ہیں ،
عوام کا مطالب زور پکڑ رہا ہے کہ کشمیر طرز کا خود مختار سیٹ اپ دو / قانون ساز اسمبلی نہیں آئین ساز اسمبلی چاہیے ؎
ہمیں صوبہ نہیں چاہیے ہم اپنے پہاڑوں میں خوش ہیں کسی کو دینا /سوچ بھی لیا تو سوچ بدلدو


ہوشیار خبردار پلان بی(B) کا اغاز
5 اکتوبر 2025 بروز اتوار قاضی نثار صاحب پہ حملہ ہوتا ہے
حملے کے بعد گلگت بھر میں ناکا بندہ ہوتی ہے چیکنگ ہوتی ہے ہر جگہ‌
تمام مکاتب فکر کے جوان، علماء مذمت کرتے ہیں
مختصر جس مقصد کے لیے امن کو خراب کرنے کے
لئے سازش رچائی گئ سب ناکام ہوتی ہے

پھر امن کو تباہ کرنے کے لئے پلان‌ بی کے طور پہ اس جوان کی لاش سامنے لائی جاتی ہے
اس پہ بھی بہت سارے سوالات جنم‌ لیتے ہیں
گاڑی محمد آباد سے ملی تو لاش‌ سلطان تک کیسے پہنچی
پولیس کی اتنی سخت سیکورٹی کے باوجود
نوجوانوں سے گزارش ہے شہادت مبارک کے پوسٹ سے زیادہ اصل‌مجرم کی طرف نظر رکھیں
اس جوان کا اس واقعے سے تعلق بہت کم‌نظر ارہا ہے
جذباتی پوسٹ کرنے سے کچھ نہیں ملنا ہے انتشار کے علاوہ
اگر واقعی یہ جوان ملوث ہے تو اس کی پوسٹ
مارٹم رپوٹ سامنے لائی جائے
بس یہ پلان بی کو ناکام بنانے میں سب اپنا کردار ادا کریں
خدا کے لئے جذباتی پوسٹ کمٹنس سے گریز کریں اصل‌دشمن کو بے نقاب کریں
اصل دشمن وہی ہے جو آپ کی‌کمزوری سے فائدہ اٹھا رہا ہےاپ کی‌کمزوری‌ یہ ہے کہ‌ہم‌ جلد جذبات میں اکے اصل‌دشمن‌ کو چھوڑ کے اپس میں لڑ پڑے ہیں۔۔
اصل‌دشمن‌وہی‌ جو امن کو تباہ کرنا چاہتا ہے
اصل‌دشمں وہ‌جو شعیہ سنی کو بھائی بھائی ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا
اصل دشمن وہی جو حقوق کے لیے ایک‌ پیلٹ فارم‌پہ‌جمع ہونے نہیں دیتا
اصل‌دشمن‌وہی‌جو اس طرح کے واقعات خود کراتا ہے تاکہ یہ مقاصد حاصل ہو

سوشل میڈیا میں اس پوسٹ پر مختلف کمنٹ آرہے ہیں ان میں سے چند مندرجہ زیل ہیں 

Comments

  • Reply
  • Share
Ikram Ullah
تھو تھو تیری شکلوں پر لعنت لعنت
  • Reply
  • Share
Mushtaq Hussain Bandali
بیشک نا معلوم چالاکی کو ہمیں ناکام بنانے کی ضرورت ہے وہ کیسے دہشتگرد تھے جنہوں نے لاش کو دریا برد کرنے کے بجائے تین دن بعد ایک مین روڈ پر پھینک دیا