پیر، 25 مئی، 2020

غذر۔ ہنزہ حسین آباد کا رہاٸیشی امیر فیملی کے ساتھ حادثے کا شکار دریا سے لاپتہ افراد کی تلاش میں انتظامیہ کا عدم تعاون قابل مزمت

امیر علی ولد دلدار شاہ ساکن حسین آباد ہنزہ حال مقیم ک شیر قلعہ سے گلگت آتے ہو ئے 

ہینزل کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا ہے اور حادثے کے نتیجے میں ان کی زوجہ اور دو بچیوں ، اس کے جڑواں بھائی پیار علی کی زوجہ 6 ماہ کا بچہ اور بیٹی گاڑی سمیت کل موخہ 23 مئی کی شام کو دریا میں جا گرے ہیں اور پیار علی کی زوجہ کو زندہ اور ان کی بیٹی کی نعش کو دریا سے نکال لیا گیا ہے جبکہ امیر علی کی  فیملی کے چاروں ممبران اور پیار علی کا 6ماہ کا بیٹا تا حال لاپتہ ہے۔عید کے روز ایک ہی گھر کے 6افراد کے حادثے میں جاں بحق ہونے سے علاقے میں کہراممچ گئی ہے ادھر سیاسی سماجی اورعوامی حلقوں نے پسماندہ خاندان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے محرومین کی مغفرت کے لئے دعا کی ہے۔ امیر علی گلگت کے سٸنیر صحافی و سماجی کارکن اسرار الدین اسرار کے ہم زلف تھے انہوں نے شوشل میڈیا میں تفصیلات بتا تےہوٸے کہا کہ میرا ہم ذلف امیر علی (گورنمنٹ ہاٸی سکول مناور کا مدرس) ،ان کی اہلیہ حج بی بی ( ٹیچر ایجوکیٹر اے کے ای ایس پی) ، ان کی پانچ سالہ اور آٹھ سالہ دو بیٹیاں اور امیر علی کے جڑواں بھاٸی پیار علی کی اہلیہ اور دو بچے سمیت ایک ہی گھر کے سات افراد کل شام کو غذر سے گلگت آتے ہوۓ گلگت کے مضافات میں واقع ہرپون کے مقام پر المناک حادثے کا شکار ہوگۓ تھے۔ ان کی پوٹھوہار گاڑی جو کہ امیر علی چلا رہے تھے ، تقریباً 100 فٹ کی بلندی سے پتھروں سے ٹکراتے ہوۓ دریاۓ گلگت میں جاگری تھی۔ موقع پر موجود ایک نوجوان نے پیار علی بھاٸی کی اہلیہ کو ذخمی حالت میں دریا سے نکال لیا تھا جبکہ ان کی چار سالہ بیٹی کی لاش بھی جاۓ حادثہ کے قریب سے برآمد ہوٸی تھی۔ میرا ہم ذلف امیر علی اور ان کی اہلیہ حج بی بی اور دوبچیاں شمس النہار اور عطبا ٕ کے علاوہ پیار علی بھاٸی کا نو ماہ کا بیٹا گاڈی سمیت دریا برد ہوگۓ تھے اور تا حال لاپتہ ہیں۔
گلگت بلتستان میں نا کافی سہولیات اور ہنر مند افراد کی کمی کی وجہ سے ریسکیو کاررواٸی تسلی بخش نہیں ہے جس کی وجہ سے چوبیس گھنٹے سے ذاٸد عرصہ گزرنے کے باوجود حادثے کی شکار پوٹھوہار گاڈی اور تین بچوں سمیت پانچ افراد کا سراغ تاحال نہیں مل سکا ہے۔ حکام سے موثر ریسکیو کاررواٸی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

اتوار، 24 مئی، 2020

سکردو . کل عید نہیں پرسو پیر کو ہوگی .رویت هلال کمیٹی کا علان مسترد

سکردو (سکندر علی زین )بلتستان ڈویژن کے مرکز امامیہ کا چاند کی عدم رویت کا اعلان, مرکزی فیصلے کو ماننے سےانکار , اتوار 24 مئی کو 30 رمضان ہو گا, اعلامیہ

عید الفطر مبار ک

ہنزہ ٹی وی . تما م عالم اسلام کو ہنزہ ٹی گروپ کی جانب سے عید الفطر مبارک اللہ پاک تما م عا لم انسانیت کو کرونا وائرس سے نجات دے . تما م مومین و مومنینات مسلمین و مسلمات کو اپنے حیفظ امان میں رکهے تما م مرحومین کے درجات بلند فرمائیں اللہ پاک تما م انسانوں کو هدایت عطا فرمائیں . آمین 

گلگت . ہرپون کے مقام پر حادثہ پانچ افراد لاپتہ

گلگت ہرپون کے مقام پر پوٹھوہار جیپ کو حادثہ 5 افراد لاپتہ 1 لیڈیز اور 1 کم سن بچی کو نکالا گیا ریسکیو کا کام جاری۔
ریسکیو زرائے۔

گلگت . تمام عید گاہوں کا دورہ احتیاطی تدابیر جاری کیے . آے سی گلگت اسامہ مجید چیمہ

گلگت (پ ر) ایڈمنسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت کیپٹن(ر) اسامہ مجید چیمہ نے کہا کہ گلگت میونسپل حدود میں نماز عیدالفطر کی ادائیگی کیلئے ضلعی انتظامیہ نے ہیلتھ ماہرین سے مشاورت کے بعد 7 نکاتی احتیاط پر مبنی کورونا وائرس سے بچنے کیلئے Sopsجاری کردیں ہیں امید ہے  علماء اور خطباء کرام کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے ضلعی انتظامیہ کے جانب سے جاری ہدایات پر عمل درآمد کریں گے امید ہے ایس او پیز عملدرآمد کیلئے علماء اپنا کردار اداکریں گے ۔یہ باتیں انہوں نے ہفتے کےروز امامیہ عیدگاہ جوٹیال،اہسنت عیدگاہ کونوداس، اسمعلی عیدگاہ شاہ کریم ہاسٹل اور نوربخشیہ عیدگاہ کونوداس کے تفصیلی دورے کے بعد میڈیاکیلئے جاری ایک بیان میں کیا انہوں نے کہا کہ میونسپل حدود میں عیدگاہوں میں نمازیوں کو ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا۔بغیر ماسک عیدگاہ آمد پابندی ہوگی عید گاہوں میں نمازی اپنے لیٙے مخصوص جائے نماز لاسکیں گے جبکہ سوشل ڈسٹنس یقینی بناتےہوئے سفید دائروں میں۔نماز پڑھنے کے پابند ہونگے ،عیدگاہ داخل ہونے سے پہلے نمازی اپنے ہاتھوں کو سینی ٹائزرز استعمال کریں گے اسکے بعدہاتھ ملانےاور گلے ملنےسے مکمل اجتناب کریں گے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے مزید بتایاکہ شہر میں کورونا وائرس کے تدارک کیلئے ضلعی انتظامیہ نے جراثیم کش سپرے صفائی مہم کوتیز کردیا ہے بلدیہ سٹاف، ویسٹ منیجمنٹ کمپنی اور رضاکار تنظیمیں مشترکہ طور پر کورونا وائرس کے خطرات سے آگاہ کرنے کیلئے عوامی آگاہی مہم کامیابی سے جاری رکھی ہوئی ہے اور آگاہی مہم کا یہ سلسلہ جاری رہے گاانہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچنے کیلئےسوشل ڈسٹنس،گلے ملنا، ہاتھ ملانا سمیت ہاتھوں کو سینی ٹائز کرنا لازم ہے اسکےعلاوہ گھر سے باہر نکلنے سےپہلے فیس ماسک کا استعمال ہر شہری پر اب واجب ہوچکا ہے انہوں نے کہا کہ سیکٹر مجسٹریٹس اپنےاپنے سیکٹرز میں کورونا وائرس ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں کورونا وائرس پھیلاو روکنےکیلئے رش والی  دکانوں کو بھی سیل اور دکانداروں پر بھاری جرمانے بھی کیے جارہے ہیں  اسسٹنٹ کمشنر گلگت کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ نےمقامی میڈیا کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ کورونا وائرس کے اچانک پھیلاو کیوجہ سے برمس اور کھر کے علاقےکو غیر معینہ مدت کیلئے سیل کردیا گیا ہے اس دوران اشیائے ضروریہ کیلئے مخصوص اجازت نامہ جاری کررہے ہیں تاکہ ٹرانسمیشن کیسز کو کنٹرول کیا جاسکے۔ بعدازاں انہوں نے کھر برمس کے نمائندہ وفد سے بات چیت کرتےہوئے ضلعی انتظامیہ کےجانب بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اس موقع پر کھر برمس کے نمائندہ ظہیرالدین بابر نے اسسٹنٹ کمشنر کیجانب تعاون کو سراہا اور عوام کی جانب سے مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی اس سے قبل  عوام کو لوڈ سپیکر کے ذریعے آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ضلعی انتظامیہ کے جانب سے جاری ہدایات پر عمل کریں تاکہ کورونا وائرس کے مکنہ۔پھیلاو کو روکا جاسکے ۔ترجمان ضلعی انتظامیہ نے واضح کیا کہ  عید کی  تعطیلات کے دوران سیکٹر مجسٹریٹس پیراملٹری فورسز اور میونسپل پولیس فورس کے ہمراہ اتظامی رٹ کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں رہیگی ۔

ہفتہ، 23 مئی، 2020

گلگت . کرونا کے رپورٹس بعد از مرگ آنا کرونا کے پهیلاو کے باعث بن سکتا ہے

اہم ترین۔
گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کے بعد تاخیر سے جاری کرنا اور چھپائے رکھنا بڑا سوال بن گیا ہے۔ اب تک جتنی اموات ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کے رپورٹ کو بعد از مرگ ظاہر یا جاری کیا گیا ہے۔ یہ قدم لوگوں میں کرونا وائرس سے لپٹ جانے کا سبب بن رہا ہے۔ آج تین اموات کے بارے میں غیر سرکاری طور پر بتایا جارہا ہے کہ ان کا ٹیسٹ رپورٹ مثبت تھا جن میں سے دو اموات کو بڑا وقت گزرا ہے۔ اب جاکے اس کو ظاہر کرنے یا جاری کرنے کا کیا فائدہ؟؟
اس سے قبل گلگت پروونشل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں میں جاں بحق ہونے والے ایک مریض کے لواحقین نے توڑ پھوڑ بھی کی تھی، جہاں توڑ پھوڑ کی مکمل مذمت کی گئی ہے وہی پر لواحقین کی جانب سے بروقت ٹیسٹ رپورٹ نہ دینے کا موقف بھی حقیقت کے قریب ہے۔

دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ کوویڈ19 کے حوالے سے فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا جبکہ میڈیا کےلئے محکمہ اطلاعات سے بھی فوکل پرسن مقرر کیا گیا تھا لیکن بروقت خبروں کی تصدیق نہیں ہورہی ہے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر شاہ زمان صاحب کبھی کبھار رات گئے اپڈیٹ کرتے ہیں کیونکہ وہ پورے جی بی کے ہسپتالوں، قرنطینہ مراکز وغیرہ کو دیکھتے ہیں اس صورتحال مین بروقت معلومات پہنچانے کا نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ محکمہ اطلاعات ہفتے میں صرف ایک دن بیدار ہوتا ہے باقی لمبی نیند سوجاتا ہے۔

جمعہ، 22 مئی، 2020

کراچی . قومی ائیر لائن کا تیارہ کرش ملبہ ملیر کینٹ میں گرا ایک خاتوں فوٹیج بنا لیا


کراچی طیارہ حادیثہ کے مسافرون کی تفصیل اور امدادی کاروایوں کی جلکیاں

‏کراچی طیارہ حادثہ

محمدطاہر،نوشین طاہر،محمدطارق،مہان طارق،محمدوقاص شامل

نداوقاص،آئمہ وقاص،وقاص یونس،حمزہ یونس،کریم زاہد،،کرن شاہد،اقراءشاہد شامل

فاطمہ الزہرہ،عارف زین،عابد،زارا،ملک محمدذیشان،نفیس زہرہ شامل
 ‎
‏کراچی طیارہ حادثہ

سعدمحمود،طاہرہ محمود،مبشرمحمد،شعیب،عثمان،صدیق،ابراہیم شامل

زبیر،سلیم،زوہیب،اسامہ،علوینہ،کریم نوید،شہناز،مشی قادرشامل

فرحان قادر،وحیدہ رحمان،فضل رحمان،آصف،عمار،فریال رسول شامل

ردارفاقت،عبدالراہی،محمدشہیر،محمدشبیرشامل
 ‎‏کراچی طیارہ حادثہ

نیلم برکت علی،فریحہ بشارت،مرزابیگ،حفضہ چودھری شامل

مہرین دانش،بیگم دلشاد،احمد دلشاد،سیمن،قراۃ العین شامل

عنایہ فاروقی،شہریارفضل،کریم،صائمہ عمران،حذیفہ عمران شامل

احمداشتیاق،مسزخالدہ،احمدخان،رضوانہ خاتون،نازیہ،ظفرشامل

 ‎‏کراچی طیارہ حادثہ

مسافروں میں سعدمحمود،رحیم زین،کاشف افضال شامل

شبیراحمد،رضوان احمد،بلال احمد،یاسمین اقبانی،فرواعلی شامل

ارمغان علی،فوزیہ،محمدایس اسلم،محمدعطاءاللہ،رائےعطاءاللہ شامل
‎‏24نیوز کےڈائریکٹرپروگرامنگ انصارنقوی بھی طیارےمیں موجودتھے


کرنل کی بیوی نے بهی ٹیگ کا استعمال کیا معاشرے میں سماجی شعور برابری نہ ہونےکی وجہ ہے. فیض اللہ فراق

تحریر: فیض اللہ فراق

" کرنل کی بیوی یا سماجی تربیت کا نفسیاتی پہلو"

اب تو سوچنے لگا ہوں کہ سابق وزیر اعظم ایک ایسی قوم کیلئے موٹر وے بنا گئے جو اس کی اہمیت سے ہی بے خبر ہے۔ جس قوم کی رگوں میں شارٹ کٹ، خودساختہ خاندانی دبدبہ اور عہدے کا گھمنڈ تیزی سے سرایت کر گیا ہو ایسی قوم کیلئے ڈویلپمنٹ کا روڈ میپ محض وقت اور وسائل ضائع کرنے کا سبب تو ہو سکتا ہے لیکن سماجی تشکیل میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ گزشتہ دنوں ہزارہ موٹر وے پر پولیس کے ساتھ   غم و غصے کی انتہا کرنے والی تربیت سے عاری ایک خاتون نے طوفان بدتمیزی کا نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے ہمارے سماج میں رائج بدترین رویے کی ترجمانی کی ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ قوموں کی تشکیل میں تربیت کا بنیادی کردار ہے اور یہ تربیت ہر شخص اپنے گھر سے لیکر زندگی کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔  گزشتہ دنوں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے اس نوعیت کے کئی اور واقعات کے اوپر سے پردہ ہٹایا ہے ۔۔۔ اس ملک میں کرنل کی بیوی سے لیکر بیوررکریٹ کے بیٹے کی کہانی سے لیکر وزیر اور ایم این اے کی اولادوں کی عیاشیاں اور وکیل اور ڈاکٹروں کی بدمعاشیوں سے لیکر انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے ججز کے وارثوں کے اللے تللے دیکھہ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ملک تو مخصوص لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے  جہاں طاقت کا سر چشمہ غریب عوام نہیں بلکہ عہدہ ہے۔  طاقت کے حصول کیلئے اس ملک کے درو دیوار کو خون میں نہلانے سے نہیں کترانے والے کیا جانے غریب کا درد، ملک سے وفا اور انسانوں سے پیار، یہ لوگ بس طاقت کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ کرنل کی بیوی اس سماج کے ان تمام کرداروں کی ترجمانی کرتی ہے جو اپنے مناصب، عہدے اور ٹیگ   کا غلط استعمال کرتے ہوئے شرماتے نہیں بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے اس ملک میں  ایم این اے کے بیٹوں  کا غریب ہاری کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے دیکھا ہے اور انصاف نہ ملنے کے ہم شاید ہیں، ہم نے کراچی کے سڑکوں پر وڈیرے کے بیٹے کا شاہ زیب کی خوبرو جوانی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا اور وڈیرے کی اولاد فتح کا نشان بناتے ہوئے عدالت کا طواف کرتی نظر آئی ، ہم نے  ججز کے بیٹوں کو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھا، ہم نے کرنل کی بیوی کو ہزارہ موٹر وے پر قانون روندھتے ہوئے دیکھا، ہم نے بیورو کریٹ کے بیٹوں کو  مظلوموں پر گولیاں برساتے دیکھا، اگر کچھ نہیں دیکھا تو ہاری کی بیٹی پر ہونے والے ظلم پر انصاف، شاہ زیب کے قاتلوں کی سزا اور قانون کی حکمرانی۔ طاقت کے نشے میں دھت معاشرے کے چند کردار اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں، ان کیلئے قانون کی کتاب ایک تماشے سے کم نہیں، یہ اشرافیہ مختلف شکلوں میں کبھی آپس میں گھتم گھتا بھی ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جیسے ہم کم فہم  لوگ جمہوریت کی جنگ اور عدلیہ کا وقار سمجھتے ہیں مگر اصل میں چار کرداروں  کے درمیان طاقت کی جنگ ہوتی ہے جبکہ ہمارے سماجی شعور میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اس ملک میں ہر جائز  کام نے بھی طاقت یا تعلق سے نکلنا ہے اسلئے معاشرے کا ہر فرد طاقت کے حصول میں پیش پیش ہے، یہی وجہ ہے مساوات، انصاف اور برابری مظلومیت کا شکار ہیں۔  ہر منصب اینے اختیارات سے متجاوز ہے، ہر عہدہ طے شدہ قوانین سے مبرا ہے اور ہر فرد کے عمل میں انتقام کے جذبے ہوتے ہیں ذمہ داری اور قانون کے نہیں، ایسے عالم میں معاشرتی برائیوں کو ایک کرنل کی بیوی سے منسلک کر کے خود کو بری الزمہ سمجھنا خام خیالی سے کم نہیں۔ ہمیں قدم قدم پر اس نوعیت کی  کرنل کی بیویاں ملیں گی۔۔۔ کہیں بیوروکریٹ، کہیں سیاستدان کہیں جج کہیں صحافی اور کہیں اور ایسے کردار بھی جو عہدے دار تو نہیں ہوتے مگر انہیں علم ہے کہ اس ملک میں ٹیگ کے بغیر کام نہیں نکلتا پھر وہ جعلی کرنل، جعلی جج، جعلی صحافی اور جعلی بیورو کریٹ بن جاتے ہیں اور سماجی تشکیل کی رگوں میں  اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔  کرنل کی بیوی کے خلاف تو پوری طرح کاروائی ہونی چاہئے لیکن ایک خاتون کی اخلاقی پستی کا ذمہ دار ادارے نہیں ہوتے۔۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا اس معاملے پر نوٹس لینا اہم پیش رفت ہے۔ اس ملک میں کوئی جنرل، کرنل، جج، صحافی، بیورو کریٹ کو قانون سے اونچا نہیں ہونا چاہئے اور یقینا سماجی شعور میں برابری کا تصور لانے تک بہت وقت لگے گا مگر ہمیں اس سمت سفر تو شروع کرنا چاہیے اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے جس طرح ہم سب نے کرنل کی بیوی کے رویے کے خلاف آواز اٹھا کر ایک مثال قائم کی ہے مگر اپنی انفرادی زندگیوں میں موجود اس نوعیت کے رویے کے خلاف جہاد کا اعلان کب کریں گے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی بھی موقع کی تلاش میں ہے اگر اسے بھی موقع ملے تو کرنل کی بیوی سے آگے نکل جائے گا۔

گلگت . بعض اخبارات اور سوشل میڈیا میں حکومت اور الیکشن کمش کےدرمیاں تنا و کے حوالے بے بنیاد خبریں گردش کرہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں . ایڈوکیٹ اور نگزیب اور شمس میر


گلگت(پ۔ر) گلگت  بلتستان صوبائی حکومت اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان تناؤ کے حوالے سے بعض اخبارات اور سوشل میڈیا میں چلنے والی خبریں من گھڑت اور بے بنیاد ہیں،  میڈیا کو جاری ایک بیان میں صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈوکیٹ اور صوبائی وزیر اطلاعات شمس میر نے
کہا کہ یہ خبریں قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں، صوبائی حکومت چیف الیکشن کمشنر اور ان کے ادارے کابھرپور احترام کرتی ہے۔ صوبائی وزراء نے اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان ایک بااختیار آئینی ادارہ ہے جس کا مسلم لیگ ن اور صوبائی حکومت بھرپور احترام کرتی ہے اور بحیثیت سیاسی جماعت و صوبائی حکومت ہم الیکشن کمیشن کی جانب سے دی جانے والی تمام ہدایات اور گائیڈ لائین پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ صوبائی وزراء نے کہا کہ گزشتہ دنوں چند اخبارات میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے صوبائی حکومت سے منسوب خبروں کی ہم سختی سے تردید کرتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن سے جاری ہونے والے حالیہ نوٹیفیکیشن میں شامل چند ایک نکات کے حوالے سے الیکشن کمیشن سے گزارش اور درخواست کی گئی تھی کہ صوبائی حکومت و انتظامیہ کی راہنمائی فرمائی جائے کہ 24جون تک صوبائی حکومت اپنے قانونی و آئینی اختیارات پر الیکشن کمیشن ایکٹ 2017کی روشنی میں کس طرح سے عمل درآمد کرے، اس معاملے کو بعض اخبارات نے اداروں کے مابین جھگڑے سے تعبیر کیا، جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن گلگت  بلتستان میں کسی بھی قسم کے اختلافات نہیں ہیں۔ صوبائی حکومت اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ آئیندہ عام انتخابات کے صاف و شفاف طریقے سے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑی ہے، صوبائی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر آزادانہ،منصفانہ اور شفاف انتخابا ت کے انعقاد کے لیے ضابطے کے مطابق اقدامات کریں گے۔

ہنزہ ۔ کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسیز کے پیش نظر انتظامیہ نے مقامی افراد کے تعاون سے علی آباد ہنزہ کے محلہ سینہ کھن اور ناصر آباد کے قرقاٹ کو سیل کردیا

ڈپٹی کمشنر ہنزہ اور اسسٹنٹ کمشنر  علی آباد نے  سینا کھن  علی آباد کا دورہ کیا  کورونا کے مثبت کیسزز سامنے آنے کے بعد مختلف افراد کی اسکریننگ کرنے کی ھدایت کی ۔ اور پورے علاقے کو جراثیم کُش سپرے بھی کرایا ہوا ہے ۔اس موقے پر پولیس اور لوکل بوائز سكاوٹس کی مدد سے ڈسٹرک انتظامیہ نے مکمل لاک ڈاؤن میں رکھا ہوا ہے ۔کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے سدباب کے پیش نظر ضلع ہنزہ   کا علاقہ ناصر آباد محلہ قرقاٹ کو  سیل کر دیا گیا ہے ۔ اور مذکورہ علاقہ میں ہر قسم کی نقل و حرکت پر تا حکم ثانی پابندی عائدکر دی گیی ہے ۔
اہل علاقہ سےممکنہ تعاون اور ایس او پیز پر عملدرآمد کی اپیل کی جاتی ہے ۔ کرونا واٸرس سے احتیاطی سے بچا جا سکتا ہے ۔ ماسک کے استعمال کی عادت بنا لیں ۔ سماجی دوری فاصلے کا خیال رکھے ایک دوسرے سے بغلگیر اور ہاتھ ملانے سے اجتناب کریں ۔ بازار میں یا رش کی جگہ پر نہ جاٸیے ۔نزلہ زکام بخار کانسی یا کرونا کی علامات ظاہر ہونے پر فوری محکمہ صحت کے حکام سے رابطہ کریں ۔ سفر سے آکر ایسلولیٹ ہوجاٸیے یوں کرونا کو شکست دیا جاٸیےگا ۔

جمعرات، 21 مئی، 2020

ہنزہ . دونے دس کی زمین پر تنازعہ .جگهڑے میں درجنوں زخمی

ہنزہ . دونے دس کے زمین پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا . سهپیر کو کهیل کی جگہ پر جگهڑ ہوا دونوں اطراف سے خوب ڈنڈوں اور پهتروں کے وار علی آباد سول ہسپتال میں دس زخمیوں کو لا یا گیا ہے .جبکہ اسی دوران ایس ایچ او جعفری معملی زخمی ہوٸے  . جگهڑا شدت اختیار کر گیا تو ہنزہ نگر کے دو ڈی سی اے سی ایس ایس پییز سیاسی و مزہبی رہنما دونگ داس پہنچے ہیں دو گروپوں کے دومیاں جاری جگهڑا روکا گیا ہے مزکرات کا عمل جاری ہے .

بدھ، 20 مئی، 2020

گلگت . ڈی سی گلگت کا کرونا کے ایس او پیز پر عملدامد دیکهنے مارکیٹ کا دورہ

از دفتر ڈ پٹی کمشنر گلگت
تاریخ: 20-05-2020
پریس نوٹ
گلگت۔ ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گلگت نوید احمد نے گلگت شہر کے مختلف بازار کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران،اے سی گلگت،اسسٹنٹ کمشنر یو ٹیز،مجسٹریٹ، صدر انجمن تاجران اور جنرل سکریٹری انجمن تاجران بھی شامل تھیں۔ڈپٹی کمشنرنوید احمد نے این ایل آئی مارکیٹ گلگت،راجہ بازار،کشروٹ و دیگر مارکیٹیوں کا دورہ کیا اور دورے کے دوران بغیر ماسک کے چلنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کردیئے گئے اور درجنوں دکانوں کو ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے پر سیل کردیا گیا۔ڈپٹی کمشنر گلگت نوید احمد نے دورے کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے بچنے کیلئے سماجی دوری،ماسک کا استعمال اور ہاتھ کو بار بار دھونے کی ضرورت پر زور دیا، اس کے ساتھ ساتھ ایڈمنسٹریٹش کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت کردی گئی اور دورے کے دوران پیدل اور گاڑیوں میں بغیر ماسک کے چلنے والے افراد پرر جرمانہ عائدکرنے کی ہدایت دی اور عوام الناس کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بغیر ماسک کے گھروں سے باہر نکلنے کی صورت میں بھاری جرمانہ عائد کرینگے اور دکاندار حضرات،ٹیکسی ڈرائیور اور سوزکی ڈرائیوروں کو بھی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دکانوں اور گاڑیوں میں بغیر ماسک آنے والے افراد کو خرید و فروخت نہ کرنے اور گاڑیوں میں نہ بیٹھانیں کی ہدایت جاری کردی گئی۔اسکے علاوہ ڈپٹی کمشنر گلگت نے دکانداروں کو مزید ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دکانوں میں ماسک کا ڈبہ،سنیٹائزرز رکھیں بغیر ماسک آنے والے افراد کو ماسک دیں اور قیمت اس فرد سے وصول کیا جائیں اس پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت پر دکاندار کیخلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائیں گی۔اسکے علاوہ ڈپٹی کمشنر گلگت نے دورے کے دوران دکانداروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ دکاندار ایڈمنسٹریشن کی جانب سے جاری کردہ ٹائم کا خیال رکھتے ہوئے اپنے کاروبار کو جاری رکھیں اور مقررہ ٹائم پر دکانوں کو بند کرنے کی ہدایات بھی کردیں اور اپنے دکانوں کے باہر سماجی فاصلے کا خاص خیال رکھیں۔ڈپٹی کمشنر گلگت نوید احمد نے عوام الناس سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں تاکہ اس موذی مرض سے خود بھی اور دوسروں کو بھی بچایا جاسکے۔
                                     
                                                                             شاہد حسین
                                                                                 پبلک ریلیشن آفیسر ڈپٹی کمشنر آفس
                                                                                 گلگت

چلاس . نیب کا مقامی افسروں کے خلاف انکوائری کی مزمت کرتے ہیں . ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق

چلاس(پ۔ر) ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نیب گلگت بلتستان کے ایک قابل میرٹ و شفافیت پر سمجھوتہ نہ کرنے والے سپوت سیکرٹری تعلیم اختر حسین رضوی کے خلاف تحقیقات کا حکم سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس 600 میٹر روڈ کا بہانہ بنایا گیا ہے وہ اختر حسین رضوی کا ذاتی سڑک نہیں عوامی نوعیت کا چھوٹا سا منصوبہ ہے اور مذکورہ منصوبے میں کوئی ایسی بات نہیں جس پر ان کے خلاف ریفرنس کا شوشا چھوڑ کر ایک باعزت سید زادہ' شفاف، نیک اور قابل افسر کی شہرت کو دھچکا لگایا جائے، نیب گزشتہ کئی سالوں سے بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکا اور اس طرح کے ہتکنڈوں کے ذریعے گلگت بلتستان کے قابل سپوتوں اور مقامی افسران کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ نیب کی جانب سے اختر حسین رضوی کے خلاف ریفرنس کی منظوری کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ہم بتانا چاہتے ہیں کہ نیب اپنے دائرے میں کام کرے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ کچھ اپوزیشن ممبران کی خواہش تھی کہ وہ اختر حسین رضوی سے غیر قانونی کام نکلوایا جائے اس پر ناکامی کے بعد نیب کو درخواست دینے سے پہلے اپنے علاقے کے ایک معزز اور باعزت افسر کی عزت اور شہرت کا خیال رکھنا چاہئے تھا مگر افسوس نہ تو درخواست گزار کی جانب سے یہ توفیق نصیب ہوئی اور نہ ہی نیب کے ذمہ داروں نے میڈیا پر بات لانے سے پہلے یہ سوچا کہ تھوڑی سے قبل از وقت معاملے کی خفیہ تفتیش کی جائے تاکہ کسی کی شہرت خراب نہ ہو۔۔۔

گلگت۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرینگے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان

گلگت۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرینگے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان

گلگت۔ کاروباری مراکز فیصلے کے مطابق کھولیں گے۔ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان

گلگت۔ تاجر ایس او پیز کا خیال رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ

گلگت۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے کابینہ کے اجلاس میں مشاورت کرینگے۔ وزیر اعلیٰ

آج گلگت بلتستان سے اچھی خبر : 22 کرونائی مریض صحت یاب, استور 16, گلگت 5, ہنزہ ایک

کورونا الرٹ
گلگت بلتستان ۔ 19 مئی 2020

گلگت ۔ 6 مذید افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے ۔ محکمہ صحت

گلگت ۔کورونا سے کل متاثرہ ہونے والے تعداد کی تعداد 556 ہوگئی ۔ محکمہ صحت

گلگت ۔ کورونا سے متاثرہ ایکٹو کیسیز کی تعداد 162 ہوگئی ہے ۔ محکمہ صحت

گلگت ۔ کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد 390 ہوگئی ۔ محکمہ صحت

گلگت ۔ کورونا سے جانبحق افراد کی تعداد 4 ہیں ۔ محکمہ صحت
آج گلگت بلتستان سے اچھی خبر : 22 کرونائی مریض صحت یاب, استور 16, گلگت 5, ہنزہ ایک
6 نئے مریض تشخیص, 4 استور, گلگت, غذر ایک ایک
ایکٹیو کیسز 162, ٹوٹل 556

منگل، 19 مئی، 2020

ہنزہ . Hunza TV کی خبر پر ایکشن ضلعی انتظامیہ نے کلاته اور گارمنٹ کی دوکانوں کو کهولنے کی اجازت دے دی

ہنزہ. کلا ته گارمنٹس کی مارکیٹ کو ایس او پیز پر عمل کرتے یوئے عید تک کهول کی اجازت مل گئی . ہنزہ ٹی بنا علی آباد نزنس کمنٹی کا آواز گذشتہ رو ز گارمنٹس اور کلاته کے بزنس مینوں نے عید تک صبح سے رات تک مارکیٹ کهونے کا مطالبہ کیا تها بزنس کمنٹی علی آباد کے ساته انتظامیہ کے میٹینگ میں انتظامیہ نے دوران نرمی لاک ڈاون گارمنٹس اور کلاته ہاوس کو ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے دوکانیں کهولنے کی اجازت دی ہے ان میں لنڈا بازار شامل نہیں ہے گزشتہ روز ان کے مطالبات کو ہنزہ ٹی وی نے اٹهایا ڈی سی ہنزہ فیاض احمد نے اسسٹنٹ کمشنر علی آباد کو ان سے مزاکرات کے احکامات جاری کیے 

ہنزہ . لاک ڈاون کے اوقات کا ر گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہیں .. ڈیپٹی کمشنر ہنزہ فیاض احمد

ہنزہ . ہنزہ کی عوام نے ہمیشہ باشعور مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے ہونے کا ثبوت دیا ہے عوام بلخصوص بزنس کمنٹی کا تعاون مثالی رہا ہے جس کی وجہ سے کرونا وائرس کی پهیلاو کو روکنے میں کامیاب رہے ہیں ہنزہ انتظامیہ کے ساته عوام کا تعاون شاندار ہے اس کو برقرار رہنا چاہئے لاک ڈاون کے اوقات کار اور شیڈول گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہیں اس میں ہم نے اپنے طرف سے ترامیم نہیں کی ہے جس کے تحت میڈیکل سٹور ہر وقت کهولے رہنگے جبکہ جنرل سٹور پورا ہفتہ دوران نرمی لاکڈاون جبکہ موبائل شاپس  کپڑے جوتے اور کچه اس طرح کے شاپس ہفتے میں چار دن تعمراتی میڑیل اور آٹو شاپس تین دن کهولنے کی اجازت ہے . اگر بزنس کمنٹی انتظامیہ سے اس سلسلے میں بات کرنا چاہئے تو بات کر سکتے ہیں انتظامیہ ہر ممکن تعاون کے لیے تیا رہے یہ باتیں ڈیپٹی کمشنر ہنزہ فیاض احمد نے کلاته ہاوسسز جوتوں اور گارمنٹس کے دوکاندارون کی جانب سے جاری بیان پر ردعمل دیتے ہوئے ہنزہ نیوز کے چیف ایڈٹیر سیداسد اللہ غازی سے بزریع موبائل فون پر گفتگو میں کہا  

سپریم کورٹ نے ملک بهر میں پورا ہفتہ مارکیٹ کهولنے کا حکم دیا جی بی میں اس کا اعطلاق نہیں ہوتا ہنزہ کے کارباریوں کا جی بی حکومت سے مارکٹس کهولوانے کا مطالبہ

ہنزہ . .(سید اسد اللہ غازی ) علی ہنزہ کے کلاتهس ' گارمنٹس اور جوتوں کے کاروباریوں نے تین دن دوکان بند رکهنے کی حکومتی فیصلے کو رد کیا عید الفطر تک صبح سے شام تک دوکانیں کهولنے کا اعلان کردیا  . ہمارے خلاف کوئی بهی کاروائی کردی گئی تو اہل خانہ سمت اجتماعی گرفتاری دینگے ہمارے اخراجا ت سرکار کے زمے ہوگی ہنزہ که عوام پر امن ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ پورے ملک میں کوئی قانون ہمارے لیے کوئی اور قانون ہمیں گهروں میں قید کرکیا جا رہا ہے اس  کی بر پو مخالفت کرتے ہیں اور اب ہم مزاہمت بهی کریبگے .  لاک ڈاون کی وجہ سے شدید متاثر ہفتے میں کبهی تین دن تو کبهی چار دن دوکانیں بند ہونے کی وجہ سے کاروبار ی حضرات کا دیوالیہ ہوچکا ہے . ملک کے تما م بڑے شہروں میں لاک ڈاون میں بتدریج نرمی لاتے جا رہے ہیں اور گلگت بلتستان بلخصوص ہنزہ میں انتظامیہ نے کاروبادی حضرات کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے . کئی ماہ سے کاروبار بند رہا اب مشروط اجازت دی ہے اور روز شاہی فرمان میں نئے حکم نامے جاری ہوتے ملک کے بڑے شہرون میں بے حد رش ہونے کے باوجود ایس او پییز پر عمل کرتے ہوئے کاروبار کی اجازت دی ہے عید الفطر کے صبح سے رات بارہ بجے تک دوکانیں کهولنے کی اجازت ہے  عید الفطر کے لیئے ایک ہفتہ بهی نہیں دوکانوں کو کهولنے کی اجازت نہیں ہے جس کی وجہ علی آباد کلا ته ہاوسس کارمنٹس شاپس اور شوز کی دوکاندارون نے  موخہ 19 مئی سے عید الفطر تک دوکانیں کهو لنے کا اعلان کیا ہے انتظامیہ کو بوقت 11بجے  اے  سی ہیڈکورٹر  علی آباد کو اپنے فیصلے سے آگا ہ کرینگے . اگر انتظامیہ نے ہمارے مطالبے کو منظور نہیں کیے تو تمام کاروباری علی آباد کے کے ایچ پر احتجا ج کرینگے اگر کسی ایک فرد کو گرفتار کیا تو کلاته گارمنٹس اور شوز کے کاروبار سے منسلک اشخاص  اپنے اہل خانہ سمت گرفتاری دینگے .  تما م متعلقہ کاروباری حضرات کو بوقت 11 بجے اے سی افس علی آباد پہنچنے کی تاکید کی گئی ہے .

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں پورا ہفتہ مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا* تاہم گلگت بلتستان پر اس حکم کا اعطلاق نہیں ہوتا

*سپریم کورٹ نے ملک بھر میں  پورا ہفتہ مارکیٹس کھولنے کا حکم دے دیا*

سپریم کورٹ کا کسی بھی مارکیٹ کو سیل نہ کرنے کا حکم

سپریم کورٹ کی مارکیٹس کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کا حکم

ایس او پیز کے مطابق شام پانچ بجے تمام مارکیٹس بند کی جائیں گی، سپریم کورٹ

پاکستان ایک ایسا ملک نہیں جو کورونا وائرس سے زیادہ بری طرح متاثر ہو، تحریری حکم

کورونا وائرس بظاہر پاکستان میں وبا کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا،تحریری حکم

سیکریٹری صحت نے بتایا اسلام آباد میں ہر سال ایک ہزار افراد پولن سے مرجاتے ہیں، تحریری حکم

ملک میں ہزاروں افراد دل، جگر،گردوں ، برین ہیمرج اور دیگر امراض کے سبب مرجاتے ہیں، تحریری حکم

حکومت کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں اور مسائل پر بھی توجہ دے، تحریری حکم

کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ملک بند نہ کیا جائے، تحریری حکم

سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو کاروبار بند رکھنے کا حکم کالعدم قرار دے دیا

2 دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کے آرٹیکل 4، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے،سپریم کورٹ

پنجاب میں شاپنگ مال فوری طور پر آج ہی سے کھلیں گے،سپریم کورٹ

سندھ شاپنگ مال کھولنے کے لیے وزارت صحت سے منظوری لے گا،سپریم کورٹ

وزارت صحت کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی اور کاروبار کھول دے گی،سپریم کورٹ

تمام مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ،سپریم کورٹ کا حکم

ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمے دار ہوں گی،سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی

صنعتیں فعال ہوجائیں تو زرعی شعبے کی اتنی ضرورت نہیں رہے گی، چیف جسٹس

کورونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسا اٹھا کرلے جائے، چیف جسٹس

صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں،چیف جسٹس

اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے،چیف جسٹس

کراچی پورٹ پر اربوں روپے کا سامان پڑا ہے جو باہر نہیں آرہا، چیف جسٹس

لگتا ہے کراچی بندرگاہ پر پڑا سامان سمندر میں پھینکنا پڑے گا، چیف جسٹس

کیا کسی کو معلوم ہے 2 ماہ بعد کتنی بے روزگاری ہوگی؟ چیف جسٹس

بند ہونے والی صنعتیں دوبارہ چل نہیں سکیں گی، چیف جسٹس

سارا الزام این ڈی ایم اے پرآئے گا، چیف جسٹس

کیا کروڑوں لوگوں کو روکنےکیلئے گولیاں ماری جائیں گی؟ چیف جسٹس

ایس او پیز کی خلاف ورزی کی صورت میں دکان بند نہیں کی جائیگی، نہ کسی کو ہراساں کیا جائیگا، چیف جسٹس

صرف ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، چیف جسٹس

عدالت این ڈی ایم اے کی رپورٹ سے مطمئن نہیں ہے، حکم نامہ

گلگت . کراچی سے تین کرونا کے پوزٹیو افراد فرار ہوکر گلگت بلتستان روانہ . ان کی تلاش میں محکمہ صحت کی مدد کریں . ڈاکٹر شاہ زمان کا عوام سے تعاون کی اپیل

گلگت . تین افراد جن کا کرونا پوزٹیو ہے کراچی ہے گلگت بلتستان روانہ ہیں ان کے نا م یہ ہیں شیر بہادور . غلام عباس اور چالیس سالہ خاتوں مکهی بانو ان کا کرونا ٹسٹ رپورٹ پی سی آر مثبت آنے کے باوجود انتظامیہ کو بتائیے بغیر کراچی سے راوانہ ہوئے . محکمہ صحت کرونا وائرس کے فوکل پرسن ڈاکڑ شاہ زمان نے عوام سے گزارش کی ہے کہ  ان تمام کی تلاش میں محکمہ صحت کو اعطلاع کردے تا کہ ان کو قرطینہ منتقیل کرکے وبا کو دوسروں تک پهیلانے سے روکا جا سکے 

پیر، 18 مئی، 2020

کرونا وائرس سائنسی حقائق اور سرمایہ دارانہ نظام

اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے 


کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
Covid 19 نے WHO کو عالمی وبا قرار دیا تو اس کے پیچھے مین سٹریم میڈیاکی خبروں سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر آئیے اس کاتجزیہ کرتے ہیں۔

By Saqib mehfooz Published on May 16, 2020 Views 53

کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
تحریر: ثاقب محفوظ ۔ پشاور

کرونا وائرس (Covid 19)  کے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO), امریکہ اور یورپی ممالک نے عالمی میڈیا کے ذریعے جو خوف  پھیلا رکھا ہے وہ اب بھی لاک ڈاؤن کی شکل میں موجود ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس نئی بیماری یا یوں کہیے کہ پرانی بیماری کی اس نئی شکل کو ایک عالمی وبا قرار دیا ہےاور اسے COVID19 کا نام دیا ہے۔ ویسےتو مین سٹریم میڈیاپراس کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ لیکن آج ہم اس کا میڈیا سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔
امریکہ کے مرکزی ادارہ برائے امراض (CDC) کے اعداد و شمار کے مطابق ایسی تمام وجوہات جو فلوکا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے سال (17-2016) میں 5 لاکھ۔ (18-2017) میں 8لاکھ۔ (19-2018) میں 5 لاکھ۔ اور اب (20-2019) کے فلو کے مخصوص موسم میں، جس میں کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار مریض  بھی شامل ہیں، اب تک 5 لاکھ 25 ہزار مریض ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی وبا کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے مریضوں کی اوسط تعداد جنھیں ہسپتالوں میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنےکو نہیں ملا۔
دوسری طرف امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے(JAMA)  کی 13 مارچ 2020 کے شمارہ کے اداریے میں یہ بات درج ہے کہ اٹلی کے علاقے لمبارڈی (جو کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متأثر ہوا ہے) کے تمام ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ فلو کے موسم میں  %90-%85  فلو کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ اس نئی بیماری سے یقینا انتہائی نگہداشت کے وارڈز پر  بوجھ ضرور پڑا ہےلیکن اس مخصوص سیزن میں وہاں مریضوں کا انتہائی نگہداشت وارڈز میں داخل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن حقائق یہ ہیں کہ اگر  ہم اطالوی قومی ادارہ صحت (National Health Institute of Italy) کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تویہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اٹلی میں 31 مارچ 2020 تک کل 11500 اموات رجسٹرڈ ہوئیں۔ جن میں فقط %12 یعنی 1380  اموات کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ کرونا وائرس لکھا گیا ہے جب کہ 10120مریض انفلوئنزہ جیسی بیماری والے گروپ میں تو ہیں لیکن ان کی موت کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے۔
اب ہم برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر جنوری 2020 میں حکومت کے قائم کردہ ماہرین کے ایک مشاورتی بورڈ (New & Emerging Virus Threat Advisory Group) کی طرف سے ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ جس کے مطابق آنے والے  2 ماہ کے دوران امریکہ  میں 22 لاکھ اور برطانیہ میں 5 لاکھ اموات کرونا وائرس کی وجہ سے ہو سکتی ہیں.
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ امریکہ کے بیماریوں کی روک تھام کے مرکزی ادارے ( CDC) کی طرف سے بھی جاری ہوتی ہے۔ جس کے مطابق امریکہ میں 17 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
انھی رپورٹس کو بنیاد بنا کر برطانیہ نے کورونا وائرس کو انتہائی خطرناک متعدی بیماری کے زمرے میں شامل کرکے اپنے ملک کے شعبہ صحت کی ویب سائٹ پر ڈالا اور یہی چیز وجہ بنی اس شدید لاک ڈاؤن کی جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
لیکن کچھ ماہ بعد جب امریکہ، برطانیہ، یورپ  اور دیگر ممالک کے اعدادوشمار سامنے آئے تو برطانوی حکومت نے حقیقت کو جانتے ہوئے کرونا وائرس Covid 19  کو ایک سادہ سا فلو قرار دیا اور نہایت خاموشی سےکرونا وائرس کی بیماری کو انتہائی خطرناک متعدی امراض کے زمرے سے نکال کر ایک عام فلو قرار دیا۔ اور حال ہی میں روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق غلط اعداد وشمار دینے کی پاداش میں امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا
26 مارچ کو شعبہ طب کے ایک نامور جریدے New England Journal of Medicine  اور 27 مارچ کی The Lancet کی اشاعت میں چین میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والے ابتدائی پانچ سو مریضوں کے ڈیٹا کا جو تجزیہ کیا گیا اس سے یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس Covid 19 اتنا خطرناک مرض نہیں جتنا  سمجھا جا رہا تھا بلکہ اس کی شرح اموات فقط %0.1 ہے۔ یعنی 1000 مریضوں میں فقط 1 مریض کے مرنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم ترین معاملہ ٹیسٹ کٹ کا بھی ہے۔ اس ٹیسٹ کٹ کے موجد کیری مولس جو کہ نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی ہدایات اور ٹیسٹ  کٹ بنانے والی کمپنی کے تعارفی کتابچے کے مطابق اس کا استعمال تحقیق  کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ تشخیص کےلیے۔ اور یہ  کٹ فقط جینیاتی مادے کا بتاتی ہے جس کی وجہ سے ملتے جلتے RNA وائرسز میں غلطی کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے روک تھام کے مرکزی ادارے (CDC) نے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ابتدا میں جو کٹس متعارف کروائیں وہ اس قدر ناقص تھی کہ وائٹ ہاؤس کی کوارڈینیٹر برائے کرونا وائرس ڈاکٹر بیریکس (Dr Birix) کو بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ ٹیسٹ کٹ %50 تک غلط نتیجہ دے سکتی ہیں ایسی ہی کچھ دیگر رپورٹس کی بنیاد پر فن لینڈ کی منسٹری آف ہیلتھ  نے 20 مارچ  کو  ان کٹس کے استعمال پر پابندی لگادی۔
اس کے علاوہ ان کٹس کا ایک اور مسلہ False Negative اور False Positive کا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیمار شخص کا نتیجہ صحت مند شخص جیسا اور ایک صحت مند شخص کا نتیجہ بیمار شخص جیسا بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ نئی کٹس کے مطابق دوسری صورتحال کا امکان کم ہے لیکن بہر حال امکان موجود ضرور ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے (JAMA)  کی 27 فروری کی اشاعت  میں موجود ہے کہ ووہان Wuhan  میں چار مریضوں کا ٹیسٹ منفی آیا تھا اور انہیں مریضوں کا دوبارہ 13 دن بعد  ٹیسٹ انہیں کٹس پر کیا گیا جو کہ مثبت تھا۔ اسی طرح پانچ مارچ کو New England journal of Medicine میں شائع ہوا کہ امریکہ کے ابتدائی مریض کی ناک سے نمونہ لیا گیا تو نتیجہ مثبت آیا  لیکن اسی مریض کے منہ سے جب نمونہ لیا گیا تو اس کا نتیجہ منفی آگیا۔  یعنی ایک ہی مریض کے دو مختلف نتائج۔ اسی طرح کے کئی اور ٹیسٹ بھی رپورٹ ہوئے۔
برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارہ Cochrane Collaboration ہے۔ جس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ ادارہ کسی بھی فارما کمپنی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتا اور نہ ہی ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے  جن کا تعلق کسی فارما کمپنی سے ہو یا ان کا سابقہ ملازم رہ چکا ہو۔ اس ادارہ کے موجودہ سربراہ پیٹر گوڈزے ( Peter Gotzhe)  کا ایک مضمون "کیا ہم بڑے پیمانے پرخوف کا شکار ہیں" (Are We Victims Of Mass Panic) کے عنوان سے برٹش میڈیکل جرنل (BMJ) کی 6 مارچ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں  "کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی. عجیب بیماری ہے کہ بہت سارے لوگ بغیر کسی علامت کے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف کسی 80 سال بوڑھے شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے جس کو دل کی بیماری یا اور کوئی مہلک بیماری بھی ہے۔ اب ایسے شخص کی موت کے بارے یہ رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ اس کی موت کرونا وائرس سے ہی ہوئی ہے یا دل کے عارضے سے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چین نے اپنے مریضوں کا ٹیسٹ ہی نہ کرایا ہوتا یا اس بیماری کا کوئی ٹیسٹ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ تو زندگی رواں دواں رہتی۔ ٹھیک ہے کچھ اموات ہوتیں لیکن غیر محسوس طریقے سے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق انفلوئنزا کی وجہ سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ جب کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کنفرم اموات کی شرح اس کے مقابلہ میں کافی کم ہے"
اسی طرح پروفیسر مائیکل لیویٹ Prof Michael Levitt جو کہ حیاتیاتی فزکس کے ماہر اور نو بل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس Covid 19 عام نزلہ زکام سے زیادہ خطرناک مرض نہیں ہے۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات ہر سال فلو سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت کرونا سے صرف وہی لوگ مر رہے ہیں جو پہلے ہی مختلف بیماریوں سے مرنے کے قریب تھے انہوں نے مزید کہا کہ کرونا کو عالمی وباء قرار دینا  دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے ۔
امریکہ کے ایک اور ڈاکٹر سکاٹ جینسن Dr Scott Jenson جو کہ سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست مینیسوٹا کی سٹیٹ میڈیکل ہیلتھ کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو  میں کہا کہ ایک 88  سالہ  مریض جو فلو انفیکشن  کی وجہ سے ہلاک ہوا تو منسٹری آف ہیلتھ کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ اس کی موت کی وجہ کرونا وائرس Covid 19 ظاہر کریں جب کہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ ان کے ایک تازہ انٹرویو کے مطابق حکومتی اداروں اور میڈیا نے جو خوف پھیلایا ہے اس کی وجہ سے مینیسوٹا اسٹیٹ میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
انسانی زندگی کے بچاؤ اور بقاء  کے نام سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر جو لاک ڈاؤن جاری ہے۔ وہ ایک طرف تو شدید خوف و ہراس  قائم کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف  کمزور ملکوں کے معاشی اقتصادی نظاموں کو مزید قرضوں کی معیشت میں پھنسانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کیا لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟ جی نہیں! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کمزور جراثیم کے خلاف لاک ڈاؤن کے علاوہ بھی حکمت عملی موجود ہے۔  جس کی مثال سویڈن اور جاپان ہیں۔انہوں نے بغیر لاک ڈاؤن کے ہی کامیابی حاصل کی۔ جاپان کا اگر ہم تجزیہ کریں تو  یہ وائرس جاپان میں 16 جنوری کو نمودار ہوا  جبکہ اٹلی میں31جنوری کو پہلا کیس سامنے آیا تھا۔جاپان نے نہ تو لاک ڈاؤن کیا اور نہ ہی خوف پھیلایا بلکہ جاپان نے کلسٹر ماڈل اپنایا۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ ایسے لوگوں کے نمونے لیے جو کہ کسی بیمار شخص کے قریب رہ چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں وائرس نہیں پایا گیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن میں وائرس پایا گیا اگر وہ کسی مریض شخص کے قریب رہے ہوں۔ اس انکشاف کو مد نظر رکھ کر انھوں نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ تمام مریضوں میں بیماری منتقل کرنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا جاپان کے شعبہ صحت نے ابتدا میں ان گروپوں کا پتا لگایا جو زیادہ بیماری پھیلانے کے مرتکب ہوئے اور ان کو آئسولیشن میں رکھا۔ جب کہ اسی کے ساتھ ساتھ عوام کو ماسک پہننے، کم ہوا دار بند جگہوں پر نہ جانے اور بہت زیادہ رش سے اجتناب کرنے کی تاکید کی۔ لیکن انڈسٹری، سکول اور کالجز اور دفاتر کو بند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج کے دن تک کل 13000 کے لگ بھگ لوگ اس مرض کا شکار ہوئے اور کل 682 لوگوں کی اموات ہوئیں۔  اسی طرح سویڈن نے بھی بہت معمولی پابندیاں لگائیں لیکن لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ اور ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity)  کی حکمت عملی کے ذریعے سے اس کا مقابلہ کیا۔ ہرڈ امیونٹی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک نارمل انسان کی قوت مدافعت  اس قابل ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی بیماری کا مقابلہ کرسکے۔ پھر ایسی بیماریاں جس کی وجہ سے شرح اموات کم ہوں اس میں یہ طریقہ کار زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اور جب معاشرے کی ایک مخصوص تعداد (٪60-٪70)  اس بیماری  کا شکار ہوجاتی ہے تو انسانی جسم میں اس جراثیم کے خلاف ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں کہ یا تو اس کا حملہ غیر مؤثر ہو جاتا ہے یا پھر اس کی شدت اتنی کم ہوجاتی ہے کہ مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔سٹاک ہوم جو کہ سویڈن کا دارالخلافہ ہے، ہرڈ ایمونٹی کے قریب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے مریضوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے آپ صرف بیماری کو ملتوی کر سکتے ہیں لیکن ختم نہیں کر سکتے۔ لاک ڈاؤن صرف ایک محدود مدت کے لیے فاعدہ مند تو ہوسکتا ہے کہ بیماری کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرکے آپ مطلوبہ تیاری کرلیں لیکن یہ مستقل حل ہر گز نہیں ہے بلکہ زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام اور اس کی پشت پر کھڑا میڈیا ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ہرڈ امیونٹی کو موقع دیا جائے کیوں کہ پھر وہ خوف نہیں بیچا جا سکتا جو کہ وہ بیچنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ دنیا کو مزید غلام بنانا چاہتا ہے
ایک قابل ذکر نکتہ یہ  بھی ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے تک دنیا بھر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ  کے ارد گرد ہی رہتی ہے لیکن جب عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے کرونا وائرس سے متأثرہ معیشتوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے تو 15مارچ تک مریضوں کی تعداد اچانک 3 لاکھ اور پھر 9 لاکھ تک پہنچ جاتی ہےاور اب بھی بدستور یہ تعداد بڑھ رہی ہے یعنی وائرس اور امداد کے نام پر قرضوں کے جال کا کوئی نہ کوئی گٹھ جوڑ ضرور ہے
اب ہمارے سامنے عالمی آلہ کار میڈیا کے بجائے سائنسی ثبوت اور ڈیٹا موجود ہے تو یہ حقیقت واضح ہوتی  ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر کرونا وائرس کو کائنات کا دشمن نمبر ایک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے  اور اس کے خاتمے کے لیے کثیر القومی فارما کمپنیوں کو امریکہ کی چھتری تلے ایسے تیار کر رہا ہے جیسے ماضی  میں اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکہ ویتنام عراق لیبیا اور شام پر کیمیائی ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنےکے جھوٹے الزامات لگا کر حملہ آور ہوا تھا ۔ اس مرتبہ میدان اور کمپنیاں مختلف ہیں۔ کبھی اگر اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکی نظام عالمی سرمایہ دار اتحادیوں کے ذریعے حملہ آور ہوتا تھا۔ تو آج اس نے کثیر القومی فارما کمپنیوں کے ذریعے مختلف میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکہ کی اسلحہ کی صنعت اور ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں چیلنج ہو چکی ہے اور اس کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے  اب دنیا کے بہت سارے ممالک اسلحہ بناتے اور فروخت کرتے ہیں اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے جو اسلحہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔
اب اگر ہم عالمی فارما کمپنیوں کا نظام دیکھیں تو امریکہ اور اس کے یورپین اتحادیوں کے علاوہ عالمی سطح پر ان کا کوئی خاطر خواہ مد مقابل موجود نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ سوشلسٹ بلاک کے ممالک کااپنے ابتدائی دور  میں صحت عامہ کے شعبے کو کمرشل بنیادوں پر استوار نہ کرنا ہے۔
تاہم یہ ماضی کی بات ہے اب تو کیوبا کے علاوہ ان ممالک میں بھی صحت کا شعبہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے بلکہ چین ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اب ان کے ہاں بھی علاج کافی مہنگا  ہے تاہم اپنے ابتدائی مزاج کی وجہ سے ان کی کمپنیوں کا کوئی خاطر خواہ عالمی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
لہذا اس میدان کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہ بھی ہےاور اس کی ابتدائی اقساط 70 کی دہائی سے عالمی سرمایہ دار فارما کمپنیوں کی طرف سے شروع ہو چکی تھیں اور 80 کی دہائی سے انہوں نے یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ ایک سیریز میدان میں اتاری۔ مثلا ایڈز , زیکا(Zica)،اینتھراکس، H1N1  وغیرہ اور اب کرونا وائرس Covid 19 . برٹش میڈیکل جنرل (BMJ) کے مطابق سوائن فلو سے عالمی فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالر کمائے اور سوائن فلو کی گائیڈ لائن بھی WHO نے جاری کی تھیں اور جن 3 سائنسدانوں نے اس کی ہدایات مرتب کی تھیں ان کو (Roche) اور (GSK)  فارما نے فنڈز فراہم کیے تھے بعد ازاں ان تینوں سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ سوائن فلو اتنا خطرناک نہیں تھا۔ جس طرح سے اسے پیش کیا گیا تھا۔ اور اب Covid 19 کی تیاری  پچھلی دہائی سے جاری ہے۔ بل گیٹس نے 2015 میں اپنی ایک پریزنٹیشن میں ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبیہ کی تھی اور پھر اس وائرس کی پروڈکشن پر گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے کام شروع ہوا ۔
اکتوبر 2019 کو نیویارک میں ایونٹ (Event 201) کے نام سے سے  ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں حیاتیاتی  جنگ کا ایک نقشہ بنایا گیا اور پھر اس سے نمٹنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی اور پھر دو ماہ بعد ہی یہ وائرس مارکیٹ میں آگیا۔
اب اس لاک ڈاؤن کا فاعدہ ایک طرف جہاں عالمی فارما کمپنیاں اٹھائیں گی تو دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے اور اس کے لیے مطلوبہ فنڈنگ بھی ہو چکی ہے ۔
اس سلسلے میں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے خوف کو بڑی سطح پر  بیچا جا چکا ہے اور مزید بھی بیچا جارہا ہے تاکہ دنیا کی اربوں کی آبادی ویکسین کو آب حیات سمجھ کر خریدنے کے لیے بے تاب ہو جائے اور دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل اور بجٹ میں باقاعدہ کرونا وائرس کے لیے فنڈز متعین ہو جائیں اور عالمی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں کہ مختلف سروسز اور بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسین کی شرط کو  لازمی قرار دیا جائے
اب رہا یہ سوال کہ سائنسی میڈیکل جریدوں اور ڈاکومنٹس کے حوالہ جات ، نوبل انعام یافتہ پروفیسروں کی دوٹوک رائے،جاپان اور سویڈن کی کامیابی پر مین سٹریم میڈیا میں خاموشی کیوں ہے؟ اور WHO ان حقائق پر خاموش کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ WHO اور آلہ کارمیڈیا کی ان حقائق پر خاموشی اس کے پس پشت سرمایہ پرستانہ استحصال کو بے نقاب کر رہی ہے۔
لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے جن کے ہر خوبصورت نعرے اور عمل کے پیچھے صرف سرمایہ کمانے اور استحصال کرنے کا ہی  مقصد کارفرما ہوتا ہے۔
By Saqib mehfooz Published on May 16, 2020 Views 53

کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
تحریر: ثاقب محفوظ ۔ پشاور

کرونا وائرس (Covid 19)  کے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO), امریکہ اور یورپی ممالک نے عالمی میڈیا کے ذریعے جو خوف  پھیلا رکھا ہے وہ اب بھی لاک ڈاؤن کی شکل میں موجود ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس نئی بیماری یا یوں کہیے کہ پرانی بیماری کی اس نئی شکل کو ایک عالمی وبا قرار دیا ہےاور اسے COVID19 کا نام دیا ہے۔ ویسےتو مین سٹریم میڈیاپراس کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ لیکن آج ہم اس کا میڈیا سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔
امریکہ کے مرکزی ادارہ برائے امراض (CDC) کے اعداد و شمار کے مطابق ایسی تمام وجوہات جو فلوکا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے سال (17-2016) میں 5 لاکھ۔ (18-2017) میں 8لاکھ۔ (19-2018) میں 5 لاکھ۔ اور اب (20-2019) کے فلو کے مخصوص موسم میں، جس میں کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار مریض  بھی شامل ہیں، اب تک 5 لاکھ 25 ہزار مریض ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی وبا کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے مریضوں کی اوسط تعداد جنھیں ہسپتالوں میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنےکو نہیں ملا۔
دوسری طرف امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے(JAMA)  کی 13 مارچ 2020 کے شمارہ کے اداریے میں یہ بات درج ہے کہ اٹلی کے علاقے لمبارڈی (جو کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متأثر ہوا ہے) کے تمام ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ فلو کے موسم میں  %90-%85  فلو کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ اس نئی بیماری سے یقینا انتہائی نگہداشت کے وارڈز پر  بوجھ ضرور پڑا ہےلیکن اس مخصوص سیزن میں وہاں مریضوں کا انتہائی نگہداشت وارڈز میں داخل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن حقائق یہ ہیں کہ اگر  ہم اطالوی قومی ادارہ صحت (National Health Institute of Italy) کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تویہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اٹلی میں 31 مارچ 2020 تک کل 11500 اموات رجسٹرڈ ہوئیں۔ جن میں فقط %12 یعنی 1380  اموات کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ کرونا وائرس لکھا گیا ہے جب کہ 10120مریض انفلوئنزہ جیسی بیماری والے گروپ میں تو ہیں لیکن ان کی موت کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے۔
اب ہم برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر جنوری 2020 میں حکومت کے قائم کردہ ماہرین کے ایک مشاورتی بورڈ (New & Emerging Virus Threat Advisory Group) کی طرف سے ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ جس کے مطابق آنے والے  2 ماہ کے دوران امریکہ  میں 22 لاکھ اور برطانیہ میں 5 لاکھ اموات کرونا وائرس کی وجہ سے ہو سکتی ہیں.
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ امریکہ کے بیماریوں کی روک تھام کے مرکزی ادارے ( CDC) کی طرف سے بھی جاری ہوتی ہے۔ جس کے مطابق امریکہ میں 17 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
انھی رپورٹس کو بنیاد بنا کر برطانیہ نے کورونا وائرس کو انتہائی خطرناک متعدی بیماری کے زمرے میں شامل کرکے اپنے ملک کے شعبہ صحت کی ویب سائٹ پر ڈالا اور یہی چیز وجہ بنی اس شدید لاک ڈاؤن کی جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
لیکن کچھ ماہ بعد جب امریکہ، برطانیہ، یورپ  اور دیگر ممالک کے اعدادوشمار سامنے آئے تو برطانوی حکومت نے حقیقت کو جانتے ہوئے کرونا وائرس Covid 19  کو ایک سادہ سا فلو قرار دیا اور نہایت خاموشی سےکرونا وائرس کی بیماری کو انتہائی خطرناک متعدی امراض کے زمرے سے نکال کر ایک عام فلو قرار دیا۔ اور حال ہی میں روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق غلط اعداد وشمار دینے کی پاداش میں امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا
26 مارچ کو شعبہ طب کے ایک نامور جریدے New England Journal of Medicine  اور 27 مارچ کی The Lancet کی اشاعت میں چین میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والے ابتدائی پانچ سو مریضوں کے ڈیٹا کا جو تجزیہ کیا گیا اس سے یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس Covid 19 اتنا خطرناک مرض نہیں جتنا  سمجھا جا رہا تھا بلکہ اس کی شرح اموات فقط %0.1 ہے۔ یعنی 1000 مریضوں میں فقط 1 مریض کے مرنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم ترین معاملہ ٹیسٹ کٹ کا بھی ہے۔ اس ٹیسٹ کٹ کے موجد کیری مولس جو کہ نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی ہدایات اور ٹیسٹ  کٹ بنانے والی کمپنی کے تعارفی کتابچے کے مطابق اس کا استعمال تحقیق  کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ تشخیص کےلیے۔ اور یہ  کٹ فقط جینیاتی مادے کا بتاتی ہے جس کی وجہ سے ملتے جلتے RNA وائرسز میں غلطی کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے روک تھام کے مرکزی ادارے (CDC) نے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ابتدا میں جو کٹس متعارف کروائیں وہ اس قدر ناقص تھی کہ وائٹ ہاؤس کی کوارڈینیٹر برائے کرونا وائرس ڈاکٹر بیریکس (Dr Birix) کو بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ ٹیسٹ کٹ %50 تک غلط نتیجہ دے سکتی ہیں ایسی ہی کچھ دیگر رپورٹس کی بنیاد پر فن لینڈ کی منسٹری آف ہیلتھ  نے 20 مارچ  کو  ان کٹس کے استعمال پر پابندی لگادی۔
اس کے علاوہ ان کٹس کا ایک اور مسلہ False Negative اور False Positive کا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیمار شخص کا نتیجہ صحت مند شخص جیسا اور ایک صحت مند شخص کا نتیجہ بیمار شخص جیسا بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ نئی کٹس کے مطابق دوسری صورتحال کا امکان کم ہے لیکن بہر حال امکان موجود ضرور ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے (JAMA)  کی 27 فروری کی اشاعت  میں موجود ہے کہ ووہان Wuhan  میں چار مریضوں کا ٹیسٹ منفی آیا تھا اور انہیں مریضوں کا دوبارہ 13 دن بعد  ٹیسٹ انہیں کٹس پر کیا گیا جو کہ مثبت تھا۔ اسی طرح پانچ مارچ کو New England journal of Medicine میں شائع ہوا کہ امریکہ کے ابتدائی مریض کی ناک سے نمونہ لیا گیا تو نتیجہ مثبت آیا  لیکن اسی مریض کے منہ سے جب نمونہ لیا گیا تو اس کا نتیجہ منفی آگیا۔  یعنی ایک ہی مریض کے دو مختلف نتائج۔ اسی طرح کے کئی اور ٹیسٹ بھی رپورٹ ہوئے۔
برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارہ Cochrane Collaboration ہے۔ جس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ ادارہ کسی بھی فارما کمپنی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتا اور نہ ہی ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے  جن کا تعلق کسی فارما کمپنی سے ہو یا ان کا سابقہ ملازم رہ چکا ہو۔ اس ادارہ کے موجودہ سربراہ پیٹر گوڈزے ( Peter Gotzhe)  کا ایک مضمون "کیا ہم بڑے پیمانے پرخوف کا شکار ہیں" (Are We Victims Of Mass Panic) کے عنوان سے برٹش میڈیکل جرنل (BMJ) کی 6 مارچ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں  "کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی. عجیب بیماری ہے کہ بہت سارے لوگ بغیر کسی علامت کے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف کسی 80 سال بوڑھے شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے جس کو دل کی بیماری یا اور کوئی مہلک بیماری بھی ہے۔ اب ایسے شخص کی موت کے بارے یہ رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ اس کی موت کرونا وائرس سے ہی ہوئی ہے یا دل کے عارضے سے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چین نے اپنے مریضوں کا ٹیسٹ ہی نہ کرایا ہوتا یا اس بیماری کا کوئی ٹیسٹ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ تو زندگی رواں دواں رہتی۔ ٹھیک ہے کچھ اموات ہوتیں لیکن غیر محسوس طریقے سے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق انفلوئنزا کی وجہ سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ جب کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کنفرم اموات کی شرح اس کے مقابلہ میں کافی کم ہے"
اسی طرح پروفیسر مائیکل لیویٹ Prof Michael Levitt جو کہ حیاتیاتی فزکس کے ماہر اور نو بل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس Covid 19 عام نزلہ زکام سے زیادہ خطرناک مرض نہیں ہے۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات ہر سال فلو سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت کرونا سے صرف وہی لوگ مر رہے ہیں جو پہلے ہی مختلف بیماریوں سے مرنے کے قریب تھے انہوں نے مزید کہا کہ کرونا کو عالمی وباء قرار دینا  دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے ۔
امریکہ کے ایک اور ڈاکٹر سکاٹ جینسن Dr Scott Jenson جو کہ سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست مینیسوٹا کی سٹیٹ میڈیکل ہیلتھ کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو  میں کہا کہ ایک 88  سالہ  مریض جو فلو انفیکشن  کی وجہ سے ہلاک ہوا تو منسٹری آف ہیلتھ کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ اس کی موت کی وجہ کرونا وائرس Covid 19 ظاہر کریں جب کہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ ان کے ایک تازہ انٹرویو کے مطابق حکومتی اداروں اور میڈیا نے جو خوف پھیلایا ہے اس کی وجہ سے مینیسوٹا اسٹیٹ میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
انسانی زندگی کے بچاؤ اور بقاء  کے نام سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر جو لاک ڈاؤن جاری ہے۔ وہ ایک طرف تو شدید خوف و ہراس  قائم کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف  کمزور ملکوں کے معاشی اقتصادی نظاموں کو مزید قرضوں کی معیشت میں پھنسانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کیا لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟ جی نہیں! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کمزور جراثیم کے خلاف لاک ڈاؤن کے علاوہ بھی حکمت عملی موجود ہے۔  جس کی مثال سویڈن اور جاپان ہیں۔انہوں نے بغیر لاک ڈاؤن کے ہی کامیابی حاصل کی۔ جاپان کا اگر ہم تجزیہ کریں تو  یہ وائرس جاپان میں 16 جنوری کو نمودار ہوا  جبکہ اٹلی میں31جنوری کو پہلا کیس سامنے آیا تھا۔جاپان نے نہ تو لاک ڈاؤن کیا اور نہ ہی خوف پھیلایا بلکہ جاپان نے کلسٹر ماڈل اپنایا۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ ایسے لوگوں کے نمونے لیے جو کہ کسی بیمار شخص کے قریب رہ چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں وائرس نہیں پایا گیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن میں وائرس پایا گیا اگر وہ کسی مریض شخص کے قریب رہے ہوں۔ اس انکشاف کو مد نظر رکھ کر انھوں نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ تمام مریضوں میں بیماری منتقل کرنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا جاپان کے شعبہ صحت نے ابتدا میں ان گروپوں کا پتا لگایا جو زیادہ بیماری پھیلانے کے مرتکب ہوئے اور ان کو آئسولیشن میں رکھا۔ جب کہ اسی کے ساتھ ساتھ عوام کو ماسک پہننے، کم ہوا دار بند جگہوں پر نہ جانے اور بہت زیادہ رش سے اجتناب کرنے کی تاکید کی۔ لیکن انڈسٹری، سکول اور کالجز اور دفاتر کو بند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج کے دن تک کل 13000 کے لگ بھگ لوگ اس مرض کا شکار ہوئے اور کل 682 لوگوں کی اموات ہوئیں۔  اسی طرح سویڈن نے بھی بہت معمولی پابندیاں لگائیں لیکن لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ اور ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity)  کی حکمت عملی کے ذریعے سے اس کا مقابلہ کیا۔ ہرڈ امیونٹی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک نارمل انسان کی قوت مدافعت  اس قابل ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی بیماری کا مقابلہ کرسکے۔ پھر ایسی بیماریاں جس کی وجہ سے شرح اموات کم ہوں اس میں یہ طریقہ کار زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اور جب معاشرے کی ایک مخصوص تعداد (٪60-٪70)  اس بیماری  کا شکار ہوجاتی ہے تو انسانی جسم میں اس جراثیم کے خلاف ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں کہ یا تو اس کا حملہ غیر مؤثر ہو جاتا ہے یا پھر اس کی شدت اتنی کم ہوجاتی ہے کہ مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔سٹاک ہوم جو کہ سویڈن کا دارالخلافہ ہے، ہرڈ ایمونٹی کے قریب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے مریضوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے آپ صرف بیماری کو ملتوی کر سکتے ہیں لیکن ختم نہیں کر سکتے۔ لاک ڈاؤن صرف ایک محدود مدت کے لیے فاعدہ مند تو ہوسکتا ہے کہ بیماری کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرکے آپ مطلوبہ تیاری کرلیں لیکن یہ مستقل حل ہر گز نہیں ہے بلکہ زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام اور اس کی پشت پر کھڑا میڈیا ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ہرڈ امیونٹی کو موقع دیا جائے کیوں کہ پھر وہ خوف نہیں بیچا جا سکتا جو کہ وہ بیچنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ دنیا کو مزید غلام بنانا چاہتا ہے
ایک قابل ذکر نکتہ یہ  بھی ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے تک دنیا بھر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ  کے ارد گرد ہی رہتی ہے لیکن جب عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے کرونا وائرس سے متأثرہ معیشتوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے تو 15مارچ تک مریضوں کی تعداد اچانک 3 لاکھ اور پھر 9 لاکھ تک پہنچ جاتی ہےاور اب بھی بدستور یہ تعداد بڑھ رہی ہے یعنی وائرس اور امداد کے نام پر قرضوں کے جال کا کوئی نہ کوئی گٹھ جوڑ ضرور ہے
اب ہمارے سامنے عالمی آلہ کار میڈیا کے بجائے سائنسی ثبوت اور ڈیٹا موجود ہے تو یہ حقیقت واضح ہوتی  ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر کرونا وائرس کو کائنات کا دشمن نمبر ایک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے  اور اس کے خاتمے کے لیے کثیر القومی فارما کمپنیوں کو امریکہ کی چھتری تلے ایسے تیار کر رہا ہے جیسے ماضی  میں اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکہ ویتنام عراق لیبیا اور شام پر کیمیائی ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنےکے جھوٹے الزامات لگا کر حملہ آور ہوا تھا ۔ اس مرتبہ میدان اور کمپنیاں مختلف ہیں۔ کبھی اگر اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکی نظام عالمی سرمایہ دار اتحادیوں کے ذریعے حملہ آور ہوتا تھا۔ تو آج اس نے کثیر القومی فارما کمپنیوں کے ذریعے مختلف میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکہ کی اسلحہ کی صنعت اور ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں چیلنج ہو چکی ہے اور اس کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے  اب دنیا کے بہت سارے ممالک اسلحہ بناتے اور فروخت کرتے ہیں اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے جو اسلحہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔
اب اگر ہم عالمی فارما کمپنیوں کا نظام دیکھیں تو امریکہ اور اس کے یورپین اتحادیوں کے علاوہ عالمی سطح پر ان کا کوئی خاطر خواہ مد مقابل موجود نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ سوشلسٹ بلاک کے ممالک کااپنے ابتدائی دور  میں صحت عامہ کے شعبے کو کمرشل بنیادوں پر استوار نہ کرنا ہے۔
تاہم یہ ماضی کی بات ہے اب تو کیوبا کے علاوہ ان ممالک میں بھی صحت کا شعبہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے بلکہ چین ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اب ان کے ہاں بھی علاج کافی مہنگا  ہے تاہم اپنے ابتدائی مزاج کی وجہ سے ان کی کمپنیوں کا کوئی خاطر خواہ عالمی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
لہذا اس میدان کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہ بھی ہےاور اس کی ابتدائی اقساط 70 کی دہائی سے عالمی سرمایہ دار فارما کمپنیوں کی طرف سے شروع ہو چکی تھیں اور 80 کی دہائی سے انہوں نے یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ ایک سیریز میدان میں اتاری۔ مثلا ایڈز , زیکا(Zica)،اینتھراکس، H1N1  وغیرہ اور اب کرونا وائرس Covid 19 . برٹش میڈیکل جنرل (BMJ) کے مطابق سوائن فلو سے عالمی فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالر کمائے اور سوائن فلو کی گائیڈ لائن بھی WHO نے جاری کی تھیں اور جن 3 سائنسدانوں نے اس کی ہدایات مرتب کی تھیں ان کو (Roche) اور (GSK)  فارما نے فنڈز فراہم کیے تھے بعد ازاں ان تینوں سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ سوائن فلو اتنا خطرناک نہیں تھا۔ جس طرح سے اسے پیش کیا گیا تھا۔ اور اب Covid 19 کی تیاری  پچھلی دہائی سے جاری ہے۔ بل گیٹس نے 2015 میں اپنی ایک پریزنٹیشن میں ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبیہ کی تھی اور پھر اس وائرس کی پروڈکشن پر گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے کام شروع ہوا ۔
اکتوبر 2019 کو نیویارک میں ایونٹ (Event 201) کے نام سے سے  ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں حیاتیاتی  جنگ کا ایک نقشہ بنایا گیا اور پھر اس سے نمٹنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی اور پھر دو ماہ بعد ہی یہ وائرس مارکیٹ میں آگیا۔
اب اس لاک ڈاؤن کا فاعدہ ایک طرف جہاں عالمی فارما کمپنیاں اٹھائیں گی تو دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے اور اس کے لیے مطلوبہ فنڈنگ بھی ہو چکی ہے ۔
اس سلسلے میں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے خوف کو بڑی سطح پر  بیچا جا چکا ہے اور مزید بھی بیچا جارہا ہے تاکہ دنیا کی اربوں کی آبادی ویکسین کو آب حیات سمجھ کر خریدنے کے لیے بے تاب ہو جائے اور دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل اور بجٹ میں باقاعدہ کرونا وائرس کے لیے فنڈز متعین ہو جائیں اور عالمی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں کہ مختلف سروسز اور بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسین کی شرط کو  لازمی قرار دیا جائے
اب رہا یہ سوال کہ سائنسی میڈیکل جریدوں اور ڈاکومنٹس کے حوالہ جات ، نوبل انعام یافتہ پروفیسروں کی دوٹوک رائے،جاپان اور سویڈن کی کامیابی پر مین سٹریم میڈیا میں خاموشی کیوں ہے؟ اور WHO ان حقائق پر خاموش کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ WHO اور آلہ کارمیڈیا کی ان حقائق پر خاموشی اس کے پس پشت سرمایہ پرستانہ استحصال کو بے نقاب کر رہی ہے۔
لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے جن کے ہر خوبصورت نعرے اور عمل کے پیچھے صرف سرمایہ کمانے اور استحصال کرنے کا ہی  مقصد کارفرما ہوتا ہے۔

گلگت . گلگت بلتستان 13 نئے کیس آئے ایکٹیو کیسیز کی تعداد 168 ہے

گلگت  کرونا وائرس اپڈیٹ

گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے 13 نئے کیسز کی تصدیق ہوگئی، محکمہ صحت

گلگت: نئے کیسز میں 1 استور,  2گانچھے ، 1نگر ،1 ہنزہ,8 کا تعلق ضلع گلگت سے ہے، محکمہ صحت گلگت بلتستان

گلگت: ایکٹیو کیسز کی تعداد 168 ہوگئی محکمہ صحت گلگت بلتستان

گلگت:کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 540 ہوگئی محکمہ صحت

 گلگت: اب تک 368 افراد صحت یاب ہوئے ہیں محکمہ صحت گلگت بلتستان

 گلگت:ضلع گلگت میں مریضوں کی تعداد 81 تک جا پہنچی،محکمہ صحت گلگت بلتستان

 گلگت: آج 20 افراد صحت یاب ہوئے ہیں جن سے 8 کا تعلق استور، 10 ضلع گلگت، 2کا تعلق شگر سے ہے، محکمہ صحت

گلگت: جی بی بھر سے اب تک 6929 سیمپلز لئے گئے محکمہ صحت

 گلگت: 6670 کے نتائج آچکے ہیں  ان میں سے 6130 منفی ہیں  اور 216 افراد کے نتائج آنے باقی ہیں ،محکمہ صحت

گلگت:اب تک کرونا وائرس سے 4 اموات ہوئی ہیں، محکمہ صحت گلگت بلتستان

ہفتہ، 16 مئی، 2020

گلگت بلتستان ایک بار پھر عالمی سازشوں کا مرکز"

تحریر: فیض اللہ فراق۔

"گلگت بلتستان ایک بار پھر عالمی سازشوں کا مرکز"

گلگت بلتستان ایک ایسا خطہ ہے جو جیو اسٹریٹجک اہمیت کے اعتبار سے ہر زمانے میں عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ 1947 سے قبل یہاں ڈوگرہ حکومت کر رہے تھے مگر انگریز نے گلگت بلتستان پر روس کے اثرات سے خائف ہو کر اس علاقے کو ڈوگرہ سے لیز پر لیتے ہوئے اپنی موجودگی کا عملا احساس اجاگر کیا، اور اگست 1947 کو انگریز ان علاقوں کو از خود دوبارہ ڈوگرہ سرکار کے حوالہ کرتے ہوئے ایک ہی شرط رکھ دی  کہ میجر براون کو مقامی سکاوٹس کا کمانڈنٹ مقرر کیا جائے۔ میجر براون کی موجودگی دراصل روس کے چین کے ساتھ رابطے کو روکنا اور سوشلزم کے اثرات سے اس  علاقے کو دور رکھنا تھا۔ انقلاب گلگت کے بعد گلگت ایک نو مولود آزاد ریاست کے طور پر ابھرا مگر ریاستی صدر شاہ رئیس خان اور اس کے ساتھی سرکاری ملازمتوں کا مطالبہ کرتے ہوئے حکمرانی سے نوکری کو ترجیح دی اور سردار عالم نے علاقے کا نظم و نسق سنبھالا جبکہ قبل ازیں میر آف ہنزہ اور میر آف نگر  اس علاقے کو پاکستان میں شامل کرنے کے حوالے سے قائد اعظم کو خطوط لکھ چکے تھے۔ مقامی آبادی   عوامی سطح پر  پاکستان سے غیر مشروط وابستگی کے خواہاں تھی، دستاویزی طور پر گلگت بلتستان کے الحاق کا کہیں ریکارڈ کا مجھے نہیں معلوم  تاہم عملا یہاں کے لوگوں کی پاکستان کے ساتھ نظریاتی وابستگی ایک حقیقت ہے اور نظریہ کسی سرکاری دستاویز کا محتاج کبھی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے دفاع کیلئے گلگت بلتستان کے لوگوں کی لازوال قربانیاں ہیں۔۔ ریاست کے وسیع تر مفاد کیلئے اس خطے کو تنازعہ کشمیر سے جوڑا گیا حالانکہ خود آزادی لینے کے بعد گلگت بلتستان کا  کسی تنازعہ سے  کوئی  تعلق نہیں بنتا تھا۔ گلگت بلتستان کے لوگوں نے پھر بھی ریاستی بیانیے کو سپورٹ کیا اور تہتر برسوں سے " کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے سے گلگت بلتستان کے درو دیوار بھی مانوس ہوتے ہوئے  آ رہے ہیں۔ تنازعہ کشمیر کے تین حصے تھے اور تینوں حصوں کی یکساں متنازعہ حیثیت ہونی چاہئے تھی  مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روز اول سے ان تینوں علاقوں پر مختلف نوعیت کے سیاسی نظام  قائم رہے مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔  مظفر آباد کو وزیر اعظم اور صدر دے کر ریاستی سیٹ اپ دیا گیا، مقبوضہ کشمیر کو پہلے اندرونی خودمختاری اور عبوری آئین دیا گیا اور اب وہاں کی متنازعہ حیثیت ختم کر کے بھارت نے اپنے آئین کا حصہ بنا لیا۔۔۔ لیکن کہیں پر بھئ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔۔ 1960 کی دہائی میں گلگت بلتستان کا علاقہ شمشال کے مقام پر کچھ ایریا  چین کو تحفے میں دیا گیا مگر اقوام متحدہ کی قراردادیں وہاں بھی خاموش رہیں ۔۔  آخر گلگت بلتستان کے 15 لاکھ محب وطن پاکستانیوں کو کیوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو رکاوٹ کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے؟ یہاں کے 15 لاکھ لوگ ہم نظریاتی پاکستانی ہیں کا نعرہ لگاتے ہیں وہاں سے بھارت اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور ہمارا دفتر خارجہ ہمیں متنازعہ قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مقامی محب وطن  نوجوان نسل کا غم و غصہ بجا ہے اور خدشہ ہے یہ غم و غصہ کوئی اور رخ اختیار نہ کرے  کیونکہ اب گلگت بلتستان پر کچھ اور ہونے جا رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی نمبرداری کو روکنا آمریکہ کیلئے لازم ہو چکا ہے اور چین اپنی معیشت سے دنیا کو پیچھے چھوڑنے جا رہا ہے۔ چین کی 80 سے 90 فیصد کاروبار کا رستہ ساوتھ چائنا سی( south china sea) ہے۔  مگر امریکہ  یہاں ویتنام، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ ملکر چین کا رستہ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس سارے عمل میں بھارت بھی امریکہ کا ہمنوا ہے۔ اس وقت امریکہ کیلئے چیلنج قراقرم ہائی وے کا رستہ ہے جہاں سے سی پیک نے گزرنا ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش ہے کہ چین کیلئے خنجراب والے رستے کو بھی مسدود کیا جائے، اس عمل کیلئے بھارت سے تعاون لیا جا رہا ہے ۔ گزشتہ دنوں سے بھارت کے گلگت بلتستان پر بیانات، بھڑکیں، اور جعلی ٹویٹر اکاونٹ  اس کی ایک کڑی ہے۔ اب تو یہ صرف انڈیکٹرز ہیں آگے بہت کچھ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہاں سے گلگت بلتستان ہر بھارتی دلچسپی کے بیانات آتے ہیں یہاں سوشل میڈیا پر اچانک فرقہ وارانہ منافرت کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ کہیں کوئی تو کنکشن ہے۔  گلگت بلتستان میں گزشتہ 5 سالوں سے  خوبصورت امن قائم رہا مگر آج اچانک منافرت پر مبنی تبصروں کا سر اٹھانا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ گلگت بلتستان کی سب سے بڑی فالٹ لائن فرقہ وارانہ منافرت ہے۔ چونکہ یہ علاقہ مختلف النوع فرقوں کا اقوام متحدہ ہے۔ یہاں یک رنگی نہیں ہے۔ دشمن ہماری اس فالٹ لائن سے ہمیں کمزور کر سکتا ہے۔۔ اس نازک مرحلے پر ہمیں سوچنا ہے کہ آخر ہم نے کیا کرنا ہے؟  یہ بات ذہن نشین کرنی کی ضرورت ہے کہ بھارت سے وہاں کے مسلمان آج بھی ناخوش ہیں، ان کی زندگی وہاں اجیرن ہے، لاکھوں کشمیری بھارتی ظلم کے خلاف اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ وہاں انسانی، بنیادی اور مذہبی حقوق قدم قدم پر پامال نظر آ رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ بھارت کسی لداخی، کشمیری اور گلگتی و بلتی کا خیر خواہ ہو سکے گا ۔۔۔ اور دوسری اہم بات گلگت بلتستان کے لوگ قومی سطح پر اتنے بالغ بھی نہیں کہ وہ اس مختلف النوع مسالک، ذاتوں ، قوموں  اور زبانوں میں ایک  ریاستی ڈھانچے  کی شکل میں بقا کو یقینی بنا سکے۔ ہم اندرون خانہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم سے آج تک ایک  جامعہ قراقرم نہیں سنبھالی جا سکی۔ ہم آج بھی فرقہ، زبان اور قوم کی بنیاد پر اپنے قلم کا استعمال کرتے ہیں۔  ہم چھوٹے چھوٹے دائروں میں بٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔ ہمارا قبلہ فرانس، ایران اور سعودی عریبیہ ہے۔ ہم گلگت بلتستان اور پاکستان سے وفادار رہیں یا نہ رہیں ایران، فرانس اور سعودی عرب کے ساتھ وفاداری کا حلف لے چکے ہیں۔۔ ہمارا اپنا کوئی اجتماعی ایجنڈا نہیں۔۔ ہم ہر آنے والے کا تالیاں بجا کر استقبال کرتے ہیں اور جانے والے کو ڈھول کی تھاپ پر رخصت کرتے ہیں۔۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹنگ پر مبارکبادیاں ہمارے فیس بک کا ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے۔ ہماری حالت تو یہ ہے اور پھر بھی اللہ نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم نا شکرے ہیں۔  ہمارا جینا، مرنا پاکستان ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔۔ گلگت بلتستان و پاکستان سے سچی  محبت ہی یہاں کی ترقی ہے۔ اگر ہم نے کسی کو خوش کرنے کیلئے ایک بار پھر فرقہ واریت کو فروغ دیا تو یاد رکھیں نقصان گلگت بلتستان کا ہوگا۔۔ نقصان گلگتیوں اور بلتیوں کا ہوگا۔۔ ۔ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں  فرقے کئ بنیاد پر ہم نے صرف نفرتوں  کی مارکیٹنگ کی ہے، بے گناہوں کا خون بہایا ہے اور اپنے علاقے کو اپنے لئے نوگو ایریاز بنایا تھا ۔۔ مگر۔۔ آج تک کوئی کسی کو فتح نہ کر سکا۔۔ آگے بھی ایسا ہوگا۔۔ کوئی کسی کو فتح نہ کر پائے گا۔۔ اپنی مٹی جہنم بنے گی۔۔۔ اپنے کھیت کھلیان سوکھ جائیں گے، اپنا ہی کاروبار ملیا مٹ ہوگا۔۔ ہمیں چاہئے کہ ایک قوم بن کر بھارتی عزائم کے خلاف پاکستان کے دفاع کیلئے آگے بڑھیں اور اپنی سیاسی محرومیوں کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کریں اور ان سے حقوق لیں جو ہمارے حقوق کے مجاز ہیں۔۔گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھارتی دھمکیوں اور عزائم کو مسترد کیا ہے اور یہاں کے لوگ ہندوں کے خلاف لڑنا فخر سمجھتے ہیں لیکن وفاقی حکومت اور مقتدر حلقوں کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان پر عوامی ریفرنڈم کرائیں اور عوامی مطالبے پر ملک کے تمام بڑے ایوانوں میں مسلئہ کشمیر کے حل تک باقاعدہ نمائندگی دے دیں۔۔ اور گلگت بلتستان کو جتنی جلدی ہو سکے کوئی آئینی چھتری فراہم کریں۔۔۔

ہنزہ . نوجوان گهروں میں رہنے کے بجائے چراہگاہوں میں جا کر قومی جانور ماخور اور آئی بکس کا غیر قانونی شکار کر رہے ہیں محکمہ جنگلی حیات کا کردار صفر

ہنزہ ۔ کرونا لاک ڈاون نا صرف انسان بلکہ جنگلی حیات بھی غیر محفوظ ۔ سنٹر ہنزہ کے چراہگاہوں میں روزانہ درجنوں کے حساب سے قومی جانور مارخور اور آئی بکس کا شکار معمول بن چکا ہے ۔ حالیہ دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون میں عوام کو گھروں میں رہنے کی تلقین کی گئی ہے مگر زیادہ تر نوجوان حسن آباد نالہ چھوس ۔ برونگ بر شیشپر میں ٹولوں کی شکل میں جا کر غیر قانونی شکار کرتے ہیں درجنوں کے حساب سے قومی جانور کے شکار کی وجہ اس کی نسل کشی ہورہی ہے مگر محکمہ جنگلی حیات خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔ اس سلسلے میں ضلعی انتظامیہ اور اور صوبائی حکومت کو بھی جنگلی حیات کے تحفظ کو یقنی بنانے کے سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ اور شکاریوں کو لگام دینے کے نالے میں بیرل لگائیے جائیے تو اس کا شکار کم ہوگا. اور لاک ڈاون کی خلاف ورزی اور غیر قانونی شکار پر مقدمات درج کر کے قرار واقعی سزا دی جائے اور ماخور کو تحفظ فراہم کیا جائے. ہنزہ کا تعلیم یافتہ طبقہ جنگلی حیات کے حقوق سے لاعلم ہے . 

محکمہ صحت جی بی کے ذریعہ مریضوں کے ٹیسٹ کے نتائج کو کونونا کے نام پر کیسے جوڑا جاتا ہے۔ ڈاکٹر فضل رحمان ، ڈائریکٹر زراعت ریسرچ جی بی۔



محکمہ صحت جی بی کے ذریعہ کورونا کے نام پر مریضوں کے ٹیسٹ کے نتائج میں کیسے ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر فضل رحمان ، ڈائریکٹر زراعت ریسرچ جی بی۔
مجھے 22 اپریل 2020 سے بخار ہوگیا تھا اور میں بیمار ہوگیا تھا۔ میں نے 25 اپریل کو ایک نجی لیب سے لیب ٹیسٹ لیا تھا اور اسے ڈبل ٹائفائڈ کی حیثیت سے عزت ملی تھی۔ میں 4 مئی 2020 تک ان کے کلینک میں میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر امین کے زیر علاج رہا ۔مجھے کچھ دن ڈاکٹر امین نے سٹی اسپتال میں داخل کرایا اور بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے دوائی تبدیل کردی۔
میرے داخلے کے اگلے دن کچھ دوسرے ڈاکٹرس (فائیسیئن نہیں) شاید کورونا کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے میرے کمرے میں آئے اور میرے چارٹ کو چیک کیا اور کچھ دوائیں اور ٹیسٹ تجویز کیے۔
انہوں نے میرے خون کا نمونہ لیا اور بتایا کہ وہ کرونا کے لئے ٹیسٹ لینے جارہے ہیں
اسی دن انہوں نے زبانی طور پر مجھے آگاہ کیا کہ آپ کے خون کے ٹیسٹ نے مثبت نتائج ظاہر کیے ہیں اور آپ کو الگ تھلگ رہنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ہی انہوں نے میری بائیں طرف کی ناک سے دوسرا نمونہ لیا اور بتایا کہ کل تک پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج پہنچادیں گے۔ میں نے مہمان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی اور نجی کمرے میں اپنے آپ کو تنہائی اور سنگروی پر رکھنا۔
اگلے دن 9 مئی 2020 کو مجھے ڈاکٹر اقبال کا متن ملا ، "مبارک ہو جناب ، آپ کا پی سی آر ٹیسٹ منفی ہے ، مبارک رہیں ، انشاء اللہ جلد ہی آپ کی صحت بہتر ہوجائے گی"۔ اس کے بعد کسی بھی ادارے نے مجھ سے ملاقات نہیں کی اور کورونا کے کسی بھی ایس او پی کے سلسلے میں کوئی ہدایات یا رہنمائی حاصل نہیں کی اور اس دن کے دوران میرے بہت سے ساتھی ، دوست احباب اور رشتے دار مجھ سے اسپتال میں ملنے گئے۔
اگلے دن ڈاکٹر امین استور سے آئے اور مجھ سے ان کے کلینک دیکھنے کو کہا۔ میں تشریف لائے اور اس نے کچھ ٹیسٹ لئے اور مجھے مشورہ دیا کہ کچھ دوائی استعمال کریں اور آپ کے گھر رہیں اور 10 مئی 2020 کو ہسپتال سے فارغ ہو جائیں۔
13 مئی کو ، 2020 کو آر ایچ کیو لیب سے ایک نئی فہرست جاری کی گئی ہے ، اور جہاں میرا نام مثبت ظاہر ہوتا ہے؟ میں حیران ہوا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے ، وہ مجھے بتا رہے ہیں کہ آپ کا نتیجہ استور کے کسی فرد کے ساتھ ملا ہوا تھا؟ خدا کے لئے تھیلے انسانوں کی زندگیوں سے نہیں کھیلتے ہیں۔
نہیں وہ مجھ سے دوسرے نمونے دینے کے لئے کہہ رہے ہیں؟ کیا میں ان کو دوں یا اعتماد کروں؟
اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟
دوسری طرف میں اپنی طرف سے اور سی جی اور پی ایس کا وزیراعلیٰ کو مشورہ دیتا ہوں کہ میں نے اپنے گھر پر خود کو قرنطین / تنہائی پر ڈال دیا ہے۔ فرض کیا گیا تھا کہ آج وہ ایک بار پھر نمونے جمع کریں گے لیکن ابھی تک کوئی جسم یہاں موجود نہیں ہے۔
میں اعلی حکام سے درخواست کروں گا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور کورونا ٹیسٹ کے نام پرعوام کی جانوں کے ساتھ جوڑ توڑ نہ کریں۔
ڈاکٹر فضل رحمان ڈائریکٹر زراعت ریسرچ جی بی۔

جمعہ، 15 مئی، 2020

گلگت .کرونا کے پانچ نئے کیس سامنے آئیے دو ریکور ہوئے ایکٹیو کیسیز 158 ہوئے

گلگت بلتستان میں رپورٹ کرونا کیسز نصف ہزار کے فگر کو چھو گئے۔
ٹوٹل کیسز 501, ایکٹیو کیسز 158

آج کرونا کے 19 مزید کیس سامنے آئے۔ 2 ریکوریز ہوئیں (ایک گلگت+ ایک گانچھے)۔ بلتستان کے اضلاع گانچھے سے دو اور شگر سے مزید ایک رپورٹ ہوا۔ اس طرح بلتستان ڈویژن میں ایکٹیو کیسز کی تعداد 12 ہو گئی۔ سکردو 4, شگر 4, گانچھے 4

ضلع گلگت میں آج کے 7 نئے کیسز کے ساتھ 65 مریض ہو گئے۔ استور میں 3 نئے مریضوں کے ساتھ تعداد 61 ہو گئی۔ دیامر میں 5 کیسز نکلے اور مجموعی تعداد 10 ہو گئی۔ غذر میں ایک نئے کیس کے ساتھ 7 مریض ہو گئے. ہنزہ میں 2 کیسز جبکہ غذر میں ایک مریض ہے۔

ٹوٹل کیسز 501, ایکٹیو کیسز 158

جمعرات، 14 مئی، 2020

گلگت . ماسک کے نا استعمال پر تین سو افراد کو جرمانہ کرایا گیا .اسامہ مجید چیمہ . اے سی گلگت

گلگت (امین خان)ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ نے کہا کے حکم پر شہر کے مختلف علاقوں میں ماسک استعمال نہ کرنے والے شہریوں، گاڑی مالکان، ٹیکسی ڈرائیورں، موٹر سائیکل سورارں پر جرمانےے جاری، جمعرات کے روز میونسپل مجسٹریٹ محمد عباس، سیکٹر مجسٹریٹ کمال نے میونسپل پولیس فورس کے ہمراہ شہر کے حدود میں ماسک استعمال نہ کرنے پر 300 سے زائد افراد پر 100،100 روپے جرمانے عائد کئے، جبکہ اسسٹنٹ کمشنر / ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن نے بغیر ماسک تحصیل دفتر داخلے پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے۔ جمعرات کے روز مقامی میڈیا کیلئے جاری ایک بیان میں ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر عملدرآمد جاری ہے شہر میں بغیر ماسک شہریوں کے آنے پر   100، 100 روپے جرمانوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ان جرمانوں کے پیسوں سے ماسک خرید کر عوام میں تقسیم کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ شہر کو جراثیم سے پاک صاف رکھنے کیلئے جراثیم کشن سپرے اور صفائی مہم جاری ہے اس سلسلے میں میونسپل کارپوریشن کا عملہ، گلگت ویسٹ منیجمنٹ کمپنی، جی بی آرایس پی سمیت رضاکار تنظیموں کے اشتراک سے صفائی مہم کامیابی سے جاری رکھیں گے جوکہ کورونا وائرس کے خاتمے تک جاری رہے گی شہرکو پاک صاف رکھنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ ملاقات کیلئے آنے والے مختلف وفود نے ضلعی انتظامیہ اور بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے کورونا وائرس کے ادارک کیلئے جاری اقدامات کو سراہاتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر /ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت  کو مکمل تعاون کا یقین دہانی کرالی

گلگت . چیرمین پرائس کنٹرول کمیٹی کا سبزیوں کی قیمت میں کمی خوش آئہند ہنزہ میں گلگت سے دوگنا قیمت پر سبزی فروخت ہورہے ہیں پرائیس کنٹرول کیمٹی لاپتہ


گلگت (سجاد) چیئرمین پرائس کنٹرو ل کمیٹی گلگت کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ نے 06 اقسام کی مزید سبزی و فروٹس کے قیمتوں میں 10 سے 20 روپے فی کلو کمی کی منظوری دے دی، سوانچل 30 سے کم کرکے 20 روپے، تربوزہ 60 روپے سے کم کرکے 50 روپے، خربوزہ پیلا 100 سے 80 روپے اور خربوزہ دوئم سفید 70 سے کم کرے 60 روپے کلو کردیا گیا، نیا نرخ نامہ آج سے نافذالعمل ہوگا، واضح رہے اس ے قبل06 مئی کو چیئرمین پرائس کنٹرول کمیٹی کیپٹن (ر) اسامہ مجیدچیمہ نے 12 اقسام کے سبزی و پھلوں کے قیمتوں میں 10 40 روپے کمی کردی تھی یہ باتیں ترجمان ضلعی انتظامیہ و پرائس کنٹرول کمیٹی نے میڈیا کیلئے جاری ایک بیان میں کیا، ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات روز 06 اقسام کے سبزی و پھلوں کے قیمتوں میں کمی اس کے علاوہ ہے، انہوں نے کہاکہ اسسٹنٹ کمشنر / ایڈ منسٹریٹر میونسپل کارپوریشن گلگت کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ کے رمضان المبارک میں اشیاء خورردہ نوش بالخصوص سبزیوں اور پھلوں کے قیمتوں میں کمی سے روزہ داروں کو بہت سہولت ملی ہے چونکہ افطای کے موقع پر تربوزہ اور خربزہ کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے  روزہ داروں نے چیئرمین پرائس کنٹرول کمیٹی کیپٹن (ر) اسامہ مجید چیمہ کے اقدام کو شاندار الفاظ میں سراہاتے ہوئے روزہ داروں کیلئے ایک نعمت قرار دیا۔کورونا وائرس لاک ڈاون کے موقع پر اشیاء خوردہ نوش کے قیمتوں میں خاطر خوا ں کمی ایڈ منسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ گلگت کی بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے، اشیاء خوردہ نوش، سبزیوں اور پھلوں کے قیمتوں میں کمی سے محنت کش طبقے کو بہت سہولت ملے گی، سماجی حلقوں نے اشیاء خوردہ نو ش کے قیمتوں پر ضلعی انتظامیہ، پرائس کنٹرول کمیٹی اور تاجر تنظیموں کے اقدام کو شاندار الفاظ میں سراہاتے ہوئے رمضان المبارک کے روزہ داروں کیلئے ایک تحفہ قرار دیا، 

گلگت . سوشل میڈیا کے زریعے جی بی کی امن کو خراب کرنے کی کوشش کو اداے ناکام بنائے ثاقب عمر ممبر ایکشن کیمیٹی کا حکومت سے مطالبہ

سوشل میڈیا میں اچانک گلگت شہر کو پھر سے خون آلود کرنے والے شرپسند عناصر کی حکومت ، انتظامیہ اور ریاستی ادارے سرکوبی کریں اچانک پھر سے فرقہ واریت کو ہوا دینے کی مزموم کوشش ہورہی ہے اور جو لوگ سوشل میڈیا میں ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف لکھ رہے ہیں ان کے خلاف سائبر کرائم کے تحت انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے

اچانک فرقہ واریت پھیلانے کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا ہے ؟ اس سلسلے کو فوری روکا جائے اور امن کو برقرار رکھا جائے، رہنما پاکستان تحریک انصاف

ہم سب کے عقائد کا احترام کرتے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام امن رواداری کو فروغ دینگے اور شرپسندوں کے عزائم خاک میں ملائینگے۔۔۔۔۔ثاقب عمر ممبر عوامی ایکشن کمیٹی

گلگت بلتستان کا ہر فرد اپنے عقیدے سمیت دوسرے کے عقیدے کا بھی تحفظ کے لئے کام کرے  اور شرپسندوں کو بے نقاب کریں ہمیں گلگت بلتستان کا امن عزیز ہے اور ہم نے ملکر گلگت بلتستان میں امن قائم رکھنا ہے۔
اہل بیت، آل رسول،  آئمہ کرام،  ازواج مطہرات اور صحابہ کرام ہمارے ایمان کا حصہ ہیں

دیامر باشا ڈیم کی تعمیر اور متاثرین کے تحفظات حسین احمد کی تحریر

*دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر اور متاثرین کے تحفظات*
*تحریر: حسین احمد*

وطن عزیز پاکستان کے مقتدر حکام کی جانب سے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کرنے کا آغاز کرنے کی نوید سنا دی گئی ہے۔ دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کا آغاز کا اعلان پاکستانیوں کے لئے ایک بڑی خوش خبری ہے کیونکہ پیشن گوئیوں کے مطابق وطن عزیز پاکستان کو مستقبل قریب میں پانی کی قحط کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس بات کی بنیاد پر اور پاکستان میں بجلی کا بحران پر قابو پانے کے ساتھ پاکستان کی کمزور معیشت کو سہارا دینے کے لئے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر اب ناگزیر بن چکا ہے۔ اس لئے دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر حقیقی معنوں میں پاکستان کی ضرورت ہے۔ دیامر بھاشاڈیم کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت نے شروع دن سے ریاست پاکستان کے ساتھ کا مکمل تعاون کیا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ اس تعاون میں گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کے عوام کا کلیدی کردار رہا ہے کیونکہ ملکی وسیع مفاد کی خاطر حقیقی معنوں میں قربانی دیامر کے عوام کو دینا پڑا۔ اپنی جائیدادیں ، اپنے آباء و اجداد کی قبریں ، مساجد ، اپنے آبائی علاقے، اپنی تہذیب و تمدن اور ثقافت سب کچھ قربان کرنے کا بوجھ اہلیان دیامر نے اٹھایا۔ وہ وقت بھی آئیگا جب ان لوگوں کو اپنا بستر باندھ کر اپنے آبائی علاقے چھوڑنے کا کہا جائے گا جوکہ انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ ملکی وسیع مفاد کی خاطر یہ لوگ اپنے آبائی علاقے بھی چھوڑیں گے۔ دیامر کے عوام کی قربانیوں کو کسی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ملک کی خاطر قربانی دینے کا وقت آنے پر ملکی شہری لبیک کہیں جبکہ دوسری جانب ریاست پر بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جن شہریوں نے اپنا سب کچھ ریاست پر قربان کیا تو اسی قربانی کے دوران ان شہریوں کو پیش آنے والے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر ریاست حل کرے۔ حکومت نہ صرف قربانی دینے والوں کے مسائل حل کرنے تک محدود رہے بلکہ ایسے ہیروز کو بڑے بڑے مراعات سے نوازے۔ ایسے لوگوں کو ایسی جگہ منتقل کرکے آباد کرے جہاں انکے بچے اعلٰی تعلیم بآسانی حاصل کرسکیں اور یہ لوگ مفت تعلیم و صحت کی سہولت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی سہولیات سے مستفید ہوسکیں جس سے دنیا کو ایک پیغام جائیگا کہ ملکی مفاد کی خاطر قربانی دینے والوں کی ریاست پاکستان قدر کرتی ہے۔ اس پیغام پر پاکستان کے دیگر عوام میں حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ بڑھ جائیگا۔

گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کے عوام نے ملکی وسیع مفاد کی خاطر قربانی تو دے دی لیکن ریاست پاکستان تاحال یہاں کے باسیوں کے لئے دیگر مراعات تو دور مگر معیاری صحت اور مناسب تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک نہ دے سکی۔ یہاں صحت کے حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ضلع بھر میں موجود واحد بڑی سرکاری ہسپتال (ریجنل ہیڈکوارٹر ہسپتال چلاس) میں کبھی ڈاکٹروں کی کمی رہتی ہے اور کبھی عوام ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپرواہی کا رونا روتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب تعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں کے عوام معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لئے ترس رہے ہیں۔ ڈیم ایریاز میں صورتحال یہاں تک بھی ہے کہ 2010ء کی تباہ کن سیلاب نے سکولوں کی عمارتیں بہایا ہے اور ڈیم ایریا قرار دیکر وہاں ابھی ایک عمارت قائم کرنا ریاست نے گوارہ نہیں کیا ہے۔ 10 سال تک متاثرین دیامر بھاشاڈیم کے بچے سخت سردی ہو یا سخت گرمی، دونوں موسموں میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہے ہیں جوکہ افسوسناک ہے۔

آئیں اب نظر ڈالتے ہیں کہ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کے کون سے سنجیدہ تحفظات اب بھی باقی ہیں؟۔ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی زمینوں کی پیمائش کے دوران متاثرین کو اپنے زمینوں کے بارے میں معلومات نہیں تھے کہ انکا زمین پیمائش کے بعد کتنا کنال یا مرلہ بنا تھا۔ خیر متاثرین نے واپڈا کی مرضی اور انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے زمین کا معاوضہ واپڈا حکام سے وصول کیا۔ دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کا آغاز کا اعلان ہوگیا لیکن متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی زمینوں کے %100 معاوضات کی ادائیگی اب بھی باقی ہے۔ اس پر ایک سوال بھی اٹھتا ہے کہ زمینوں کی %100 ادائیگی کیے بغیر ڈیم کا کام کیسے شروع کیا جاسکتا ہے؟

دوسری جانب متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کا مرحلہ بھی تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔ متاثرین دیامر بھاشاڈیم جو اپنے آبائی علاقہ چھوڑ کر جانے جارہے ہیں تو
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان متاثرین کو کہیں مناسب جگہ میں آباد کرے۔ کیونکہ متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کے لئے کافی کھینچا تانی کے بعد سابق ڈپٹی کمشنر دیامر امیراعظم حمزه نے علاقے کی کمیونٹی سے مل کر متاثرین کو ایک خاص پیکیج پر قائل کرکے اعلٰی حکام کی طرف بھیج دیا تھا جس کی باقاعدہ منظوری ایکنک سے بھی ہوچکی ہے۔ اس لئے  ڈیم کا کام کا آغاز کرنے سے پہلے متاثرین دیامر بھاشاڈیم کی نئی آبادکاری کے لئے منظور شده پیکیج کی ادائیگی کرنا مناسب ہوگا تاکہ متاثرین میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔

ایک اور بڑا مسئلہ جو دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ بن سکتا ہے جو گلگت بلتستان (تھور) اور خیبرپختونخواہ (ہربن و بھاشا) کے درمیان جاری حدود تنازعہ ہے۔ اس تنازعہ کی پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو خیبرپختونخواہ کا ضلع کوہستان کا علاقہ بھاشا پل تک صدیوں سے گلگت بلتستان (تھور) کے قبضے میں رہا۔ اس علاقے میں دیامر کا علاقہ تھور کے عوام اپنے بکریوں کے ریوڑ رکھتے تھے اور تھور کے عوام اپنے چرواہے انہی علاقوں میں رکھتے تھے۔ جب دیامر بھاشاڈیم میں زیرآب آنے والی زمینوں کی پیمائش کا مرحلہ شروع ہوا تو  بھاشا پل سے لے کر بسری تک خیبرپختونخواہ کا علاقہ ہربن و بھاشا کے عوام نے ناجائز ملکیت کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کے بعد تھور اور ہربن کے قبائل مورچہ زن بھی ہوئے اور نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئے۔ خیبرپختونخواہ کی گلگت بلتستان دیامر کی زمین پر  اچانک دعویٰ کرنا اس میگا پراجیکٹ کی خلاف سازش سے کم نہیں لہذا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنے سے پہلے حدود تنازعہ کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

*"آئیں مل کر دیامر بھاشاڈیم بنانے کے لئے جدوجہد کریں ، آئیں مل کر پاکستان کی خوشحالی کے لئے جدوجہد کریں"*

گلگت . کرونا کے 18 کیس آنے کے بعد ایکٹیو کیسیز کی تعد اد 141 ہوئی

گلگت . کرونا کے اج نئے 18 کیس آئے اور 11 صحت یاب ہوئے گلگت سه 15 کیس ائے استور سے 2 اور نگر سے ایک کی کی تصدیق ہوئی یو ں ایکٹیو کیسسز کی  تعداد 141تک پہبچ گئی ہے   11 صحت یا ب مریضوں کا تعلق استور سے ہے .

گلگت . کرونا وائرس کے دوران پرائیوٹ سکولوں کو فیس نہ لینے کے لیے پابند کے لیے دائر دارخوست میں پرائیوٹ سکولوں کو بهی فریق بنا لیا .

چیف کورٹ گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سکولوں کو کورونا وبا کے دوران فیس نہ لینے کا پابند بنانے کے لئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی سماعت کے دوران فاضل عدالت نے پرائیویٹ سکولز نیٹ ورک (PSN) گلگت بلتستان اور پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک (PEN) بلتستان کی جانب سے پرائیویٹ سکولوں کو بھی فریق بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوے چیف جسٹس نے ریمارکس دیا کہ ہم خود چاہتے تھے کہ پرائیویٹ سکولز اس کیس میں فریق بنیں۔ ہم نے پرائیویٹ سکولوں کے مفاد کو بھی دیکھنا ہے اور مفاد عامہ کو بھی دیکھنا ہے۔ عدالت نے حکومت سے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری ایکٹ کی کاپی منگواتے ہوے کیس 15 جون تک ملتوی کردیا۔عدالت میں پرائیویٹ سکولز گلگت بلتستان کے صدر ذاکر حسین شیخ اور پرائیویٹ ایجوکیشن نیٹ ورک بلتستان کے جنرل سیکریٹری محمد میر اور لیگل ایڈوکیٹ ادریس یوسف ایڈوکیٹ پیش ہوے

چلاس . پاک آرمی کی تعاون سے دہامر ڈیوزن میں پی آر سی مشین انسٹال کیا گیا .

چلاس  .( شمس ڈار)دیامر ڈویژن کے مرکزی شہر چلاس میں قائم ریجنل ہسپتال میں پاکستان آرمی کی مدد سے ایک اور جدید PCR ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے،جہاں کامیابی کے ساتھ کورونا ء کے متاثرہ مریضوں کے ٹیسٹ کیئے جا رہے ہیں۔ یہ لیبارٹری 48گھنٹوں کے اندر کوروناء سے متاثرہ مریضوں کی رپورٹ تیار کرے گی۔  سی ایم ایچ گلگت کے پیتھالوجسٹس کی زیر نگرانی مریضوں کے ٹیسٹ کامیابی سے شروع کیئے جا چکے ہیں۔  کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل احسان محمود خان کی ہدایات پر سی ایم ایچ گلگت کے ماہرین بھی چلاس میں تعینات کر دیئے گئے ہیں۔چلاس ریجنل ہسپتال میں کورونا ٹیسٹنگ لیب کا بروقت قیام عمل میں لانے پر دیامر کی عوام نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا ہے۔پاک فوج کی جانب سے کیئے جانے والے اقداما ت کی بدولت امید کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں جلد کورونا کی وباء پر مکمل قابوپایا جا سکے گا۔

اسلام آباد . حکومت حالات کو کنٹرول میں محسوس کر رہی ہے . اس لیے لاک ڈاون میں بتدریج نرمی لا رہی ہے

حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد زندگی کسی حد تک معمول پر آچکی ہے مگر اس کے ساتھ یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بہت تیزی کے ساتھ سب کچھ کھولا جارہا ہے اور نادانستہ طور پر کووڈ 19 کے حوالے سے ایک متنازع 'ہرڈ امیونٹی' پالیسی کی جانب بڑھا جارہا ہے۔

ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی آبادی کے بڑے حصے میں وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے انہیں اس سے متاثر ہونا دیا جائے، جس سے صحتیاب ہونے کے بعد ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعتی اینٹی باڈیز بن جائیں گی
دنیا کی کوئی بھی حکومت کھلے عام اس متنازع پالیسی کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ اس سے انسانی زندگیوں کو خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

تحریر جاری ہے‎

ہرڈ امیونٹی کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ کسی آبادی کے 70 فیصد حصے کو کسی بیماری جیسے کووڈ 19 کا شکار ہونے دیا جائے، جس سے ان کے اندر وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوگی اور اتنی زیادہ آبادی میں مدافعت ہیدا ہونے سے باقی افراد بھی محفوظ ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں یہ وبا بتدریج ختم ہوجائے گی۔

پاکستان میں کوئی بھی حکومتی عہدیدار تسلیم نہیں کرتا کہ اس متنازع حکمت عملی پر بطور پالیسی آپشن بات کی گئی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکومت ہرڈ امیونٹی پر غور کررہی ہے، تو انہوں نے کہا 'بالکل بھی نہیں، یہ حکومتی پالیسی نہیں، ہم نہ تو اس خیال کو آگے بڑھا رہے ہیں اور نہ ہی اس پر بات چیت کررہے ہیں'۔

مگر حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اور منگل کو مسلم لیگ نواز کے سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے سینیٹ میں خطاب کے دوران خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت خود کو ہرڈ امیونٹی کی پالیسی کی جانب لے جارہی ہے۔

تحریر جاری ہے‎

پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔

اعلیٰ حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ اموات کی کم شرح نے لاک ڈاؤن میں نرمی لانے کے عمل میں مدد دی۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ اموات کی کم تعداد پر سمجھا جارہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں لاک ڈاؤن موثر رہا اور بیماری کی شرح کو دبا دیا یا کسی طرح پاکستانی شہریوں میں اس انفیکشن کے خلاف مزاحمت پیدا ہوگئی ہے

یہ عہدیداران ہرڈ امیونٹی کے خیال پر اجلاسوں میں تبادلہ خیال کی تردید کرتے ہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ جلد یا بدیر وائرس سے تحفظ مل جائے گا اور اموات کی کم شرح یقین دہانی کراتی ہے کہ کووڈ 19 کی صورتحال قابو میں ہے۔

تحریر جاری ہے‎

ایک عہدیدار نے کہا 'وائرس آگے بڑھتا رہا تو ہر ایک میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے گی'۔

مگر کیا حکومت فکرمند نہیں کہ وہ کس خطرناک راستے کی جانب بڑھ رہی ہے؟ تو ایک عہدیدار نے کہا کہ متعدد ممالک آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کو نرم کررہے ہیں حالانکہ بیماری کی شرح پر ابھی قابو نہیں پایا گیا 'دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے'۔

مگر کیا یہ ہرڈ امیونٹی کی جانب بتدریج بڑھنے کا عمل ہے؟ عہدیدار کا اصرار تھا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کھل جائیں۔

اگرچہ ایسے واضح سائنسی شواہد تو موجود نہیں، مگر عہدیدار نے کہا کہ کووڈ 19 پر فیصلے کرنے والوں نے کچھ چیزوں کو نوٹس کیا ہے، مثال کے طور پر امریکا میں کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں اس بیماری کی شرح نیویارک کے مقابلے میں کم ہے 'ان دونوں ریاستوں کا موسم نیویارک کے مقابلے میں زیادہ گرم، اسی طرح نئی دہلی اور کراچی میں کووڈ کے پھیلاؤ کی شرح یکساں ہے، مگر نئی دہلی میں اموت کی شرح کراچی سے کم ہے،، یعنی جہاں درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے، وائرس کا اثر اتنا ہی کم ہوتا ہے، تو ہمارے پاس لاک ڈاؤن میں نرمی سے بہتر کوئی متبادل نہیں رہ جاتا'۔

ہرڈ امیونٹی کا تصور نیا نہیں، برطانیہ نے اسے پہلے اپنایا تھا اور وبا کے آغاز میں اس وقت ترک کردیا جب یہ تخمینہ سامنے آیا کہ اس سے طبی نظام پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

بھارت میں بھی اسے اپنانے کے لیے منصوبہ پیش کیا گیا۔

اسی طرح بین الاقوامی میڈیا میں سویڈن کا ذکر بھی ایسے ملک کے طور پر کیا جاتا ہے جس کی پالیسی اس سوچ کے بہت قریب ہے۔

سویڈن میں کسی قسم کا لاک ڈاؤن نہیں لگایا گیا، بس شہریوں کو سماجی دوری کی مشق پر زور دیا گیا جبکہ معمر افراد کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔

جیسے اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اس پالیسی کے پیچھے یہ خیال ہوتا ہے کہ آبادی کا بہت بڑا حصہ وائرس کا شکار ہوگا تو صحتیاب ہونے پر مریضوں میں ایسی اینٹی باڈیز بن جائیں گی جو کچھ عرصے تک اس وائرس سے محفوظ رکھیں گی۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ نئے کورونا وائرس کے شکار افراد میں اس قسم کی مدافعت (امیونٹی) بنتی ہے یا نہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ ابھی ایسے شواہد موجود نہیں جن سے معلوم ہو کہ کووڈ 19 سے صحتیاب ہونے والے افراد میں ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں، جو دوسری بار بیمار ہونے سے بچاسکیں۔

درحقیقت اس پالیسی پر عملدرآمد خطرے سے خالی نہیں، جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ بیمار ہوں گے تو ہسپتالوں میں علاج کے لیے جگہ ہی نہیں ملے گی اور توقعات سے زیادہ ہلاکتیں بھی ہوسکتی ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ملک کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے اور 70 فیصد آبادی (جو ہرڈ امیونٹی کے لیے ضروری ہے) 15 کروڑ 46 لاکھ سے زائد بنتی ہے۔

یعنی 15 کروڑ سے زائد پاکستانی شہری بیمار ہوں گے تو ہرڈ امیونٹی پر عملدرآمد ہوگا۔

اس کو مزید پھیلایا جائے تو اس وقت پاکستان میں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق کووڈ 19 سے ہلاکتوں کی شرح 2.2 فیصد ہے، مگر ممکنہ طور پر اس بیماری سے ہلاکتوں کی شرح اس سے کم ہوگی۔

ایک وبائی امراض کے ماہر کے مطابق پاکستان میں کووڈ کیسز کی اصل تعداد مصدقہ کیسز سے 10 گنا زیادہ ہوسکتی ہے اور اس سے ہرڈ امیونٹی سے ہلاکتوں کی شرح کا اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔

یعنی ابھی اگر شرح 2.2 فیصد ہے تو کیسز کی تعداد میں دگنا اضافے سے یہ شرح 1.1 فیصد پر آجاتی ہے، اگر کیسز کو 10 گنا زیادہ سمجھا جائے تو یہ اموات کی شرح 0.22 فیصد ہوجاتی ہے، یعنی ہرڈ امیونٹی سے اموات کی شرح کا تعین O.22 سے ایک فیصد تک لگانا ہوگا۔

اگر 0.22 فیصد کو دیکھا جائے تو 70 فیصد یعنی 15 کروڑ سے زائد آبادی میں یہ تعداد 3 لاکھ 40 ہزار 174 بنتی ہے جبکہ ایک فیصد شرح اموات 15 لاکھ 46 لاکھ 246 بنتی ہے۔

یہ ایک سرسری تخمینہ ہے جس میں متعدد سائنسی عناصر کو شامل نہیں کیا گیا مگر اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ پالیسی کتنی انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔

طبی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت ہم سب وائرس سے محفوظ ہوجائیں گے ، مگر مسئلہ وقت کا ہے۔

اگر کوئی آبادی ویکسین کی دستیابی سے قبل امیونٹی کی جانب بڑھتی ہے تو اس کی قیمت انسانی جانوں کی شکل میں ادا کرنا ہوگی جو کہ تباہ کن بھی ہوسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے وبا کو پھیلنے سے روکنے پر زور دیا جاتا ہے تاکہ طبی مراکز پر بوجھ بہت زیادہ نہ بڑھ سکے۔

کے پی کے کے وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کہتے ہیں 'مجھے ہرڈ امیونٹی کی پروا نہیں بلکہ اس بات کی پروا زیادہ ہے کہ ہمارے ہسپتال مریضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالیں گے'۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت حالات کو کنٹرول میں محسوس کرتی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) سے منسلک ایک عہدیدار نے کہا 'طبی مراکز حالات پر اچھی طرح قابو پارہے ہیں'۔

این سی او سی کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں آج 21 ہزار ہسپتال بیڈز کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جبکہ اس وقت زیرعلاج مریضوں کی تعداد ساڑھے 6 ہزار سے زائد ہے۔

اسی طرح کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے دستیاب وینٹی لیٹرز کی تعداد 1400 ہے جبکہ 93 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں، یعنی ابھی گنجائش موجود ہے۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ عالمی سطح پر کووڈ 19 کے شکار افراد کو وینٹی لیٹرز پر رکھے جانے کی شرح 4.8 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں ابھی یہ شرح 2.5 فیصد ہے، یہ اعدادوشمار حکام جیسے ڈاکٹر ظفر مرزا اور تیمور سلیم جھگڑا میں محتاط خوش امیدی کا باعث ہیں، مگر کیا یہ سلسلہ آگے بھی برقرار رہ سکے گا؟

لگ بھگ تمام عہدیداران متفق ہیں کہ اگلے 2 سے 4 ہفتے بہت اہم ہیں کیونکہ اس عرصے میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے اثرات سامنے آئیں گے۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ رمضان میں مساجد کو کھولنے کے اثرات عید پر واضح نظر آئیں گے۔

رواں ہفتے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اثر جون کے دوسرے ہفتے میں دیکھا جاسکے گا اور جیسا حالیہ دنوں میں ایس او پیز اور سماجی دوری کی خلاف ورزیاں نظر آرہی ہیں، وہ طبی مراکز پر خطرناک حد تک دباؤ میں اضافے کا عندیہ دیتی ہیں۔

ایک عہدیدار نے اعتراف کیا 'اگر ہسپتالوں میں اچانک رش بڑھ گیا تو ہم مسائل کا شکار ہوں گے، اگر ہسپتالوں کے 75 فیصد سے زیادہ بستر کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے درکار ہوں گے تو ہمیں سنگین بحران کا سامنا ہوگا'۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ بیمار افراد اور اموات کی تعداد اب تک تخمینے سے کم رہی ہیں 'اگر اگلے چند ہفتوں تک اعدادوشمار تخمینے سے زیادہ ہوگئے تو ہمارے لیے خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی'۔

گلگت ۔ گلگت میں ایک او مظلوم ریڑھا بان مجسٹریٹ کے ظلم کا شکار ہوگیا

 گلگت (طارق حسین)

آج گلگت میں ایک او مظلوم ریڑھا بان مجسٹریٹ کے ظلم کا شکار ہوگیا ۔
یہ شخص گزشتہ دو تین دن سے بیمار تھا اور اسکت پاس دواٸی لینے کیلٸے بھی پیسے نہیں تھے شاٸد دواٸی کے پیسے اور بچوں کی ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کیلٸے چند تربوز ریڑھی پے رکھ کر کنوداس کی سٹر کے کنارے کھڑا تھاکہ مجسڑیٹ اسکی مظلومیت دیکھ ٹوٹ پڑا اور ریھی کو الٹا کر اس غریب کے سارے خواب چکنا چور کردٸیے ۔  عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اسغریب کی ریڑھی کے داٸیں باٸیں درجنوں ریڑھا والے کھڑے تھے لیکن مجسٹریٹ صاحب نے کسی کو کچھ نہیں کہا ۔  معلوم نہیں اس غریب کے بچوں نے آج رات کاکھانا بھیو کھایاہوگا کہ نہیں جس پابند کے پاس دواٸی لےنے کے پیسے نہ ہوں وہ بچوں کو کیاکھلاٸے ۔ حکام بالا سے گزارش ہے کہ قانون کی دھجیا ں اڑاتے ہوٸے عوام میں مایوسی پھیلاوالے ایسے مجسٹریٹس کے معاملات کا نوٹس لیں