پیر، 18 مئی، 2020

کرونا وائرس سائنسی حقائق اور سرمایہ دارانہ نظام

اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے 


کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
Covid 19 نے WHO کو عالمی وبا قرار دیا تو اس کے پیچھے مین سٹریم میڈیاکی خبروں سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر آئیے اس کاتجزیہ کرتے ہیں۔

By Saqib mehfooz Published on May 16, 2020 Views 53

کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
تحریر: ثاقب محفوظ ۔ پشاور

کرونا وائرس (Covid 19)  کے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO), امریکہ اور یورپی ممالک نے عالمی میڈیا کے ذریعے جو خوف  پھیلا رکھا ہے وہ اب بھی لاک ڈاؤن کی شکل میں موجود ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس نئی بیماری یا یوں کہیے کہ پرانی بیماری کی اس نئی شکل کو ایک عالمی وبا قرار دیا ہےاور اسے COVID19 کا نام دیا ہے۔ ویسےتو مین سٹریم میڈیاپراس کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ لیکن آج ہم اس کا میڈیا سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔
امریکہ کے مرکزی ادارہ برائے امراض (CDC) کے اعداد و شمار کے مطابق ایسی تمام وجوہات جو فلوکا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے سال (17-2016) میں 5 لاکھ۔ (18-2017) میں 8لاکھ۔ (19-2018) میں 5 لاکھ۔ اور اب (20-2019) کے فلو کے مخصوص موسم میں، جس میں کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار مریض  بھی شامل ہیں، اب تک 5 لاکھ 25 ہزار مریض ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی وبا کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے مریضوں کی اوسط تعداد جنھیں ہسپتالوں میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنےکو نہیں ملا۔
دوسری طرف امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے(JAMA)  کی 13 مارچ 2020 کے شمارہ کے اداریے میں یہ بات درج ہے کہ اٹلی کے علاقے لمبارڈی (جو کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متأثر ہوا ہے) کے تمام ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ فلو کے موسم میں  %90-%85  فلو کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ اس نئی بیماری سے یقینا انتہائی نگہداشت کے وارڈز پر  بوجھ ضرور پڑا ہےلیکن اس مخصوص سیزن میں وہاں مریضوں کا انتہائی نگہداشت وارڈز میں داخل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن حقائق یہ ہیں کہ اگر  ہم اطالوی قومی ادارہ صحت (National Health Institute of Italy) کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تویہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اٹلی میں 31 مارچ 2020 تک کل 11500 اموات رجسٹرڈ ہوئیں۔ جن میں فقط %12 یعنی 1380  اموات کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ کرونا وائرس لکھا گیا ہے جب کہ 10120مریض انفلوئنزہ جیسی بیماری والے گروپ میں تو ہیں لیکن ان کی موت کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے۔
اب ہم برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر جنوری 2020 میں حکومت کے قائم کردہ ماہرین کے ایک مشاورتی بورڈ (New & Emerging Virus Threat Advisory Group) کی طرف سے ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ جس کے مطابق آنے والے  2 ماہ کے دوران امریکہ  میں 22 لاکھ اور برطانیہ میں 5 لاکھ اموات کرونا وائرس کی وجہ سے ہو سکتی ہیں.
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ امریکہ کے بیماریوں کی روک تھام کے مرکزی ادارے ( CDC) کی طرف سے بھی جاری ہوتی ہے۔ جس کے مطابق امریکہ میں 17 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
انھی رپورٹس کو بنیاد بنا کر برطانیہ نے کورونا وائرس کو انتہائی خطرناک متعدی بیماری کے زمرے میں شامل کرکے اپنے ملک کے شعبہ صحت کی ویب سائٹ پر ڈالا اور یہی چیز وجہ بنی اس شدید لاک ڈاؤن کی جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
لیکن کچھ ماہ بعد جب امریکہ، برطانیہ، یورپ  اور دیگر ممالک کے اعدادوشمار سامنے آئے تو برطانوی حکومت نے حقیقت کو جانتے ہوئے کرونا وائرس Covid 19  کو ایک سادہ سا فلو قرار دیا اور نہایت خاموشی سےکرونا وائرس کی بیماری کو انتہائی خطرناک متعدی امراض کے زمرے سے نکال کر ایک عام فلو قرار دیا۔ اور حال ہی میں روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق غلط اعداد وشمار دینے کی پاداش میں امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا
26 مارچ کو شعبہ طب کے ایک نامور جریدے New England Journal of Medicine  اور 27 مارچ کی The Lancet کی اشاعت میں چین میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والے ابتدائی پانچ سو مریضوں کے ڈیٹا کا جو تجزیہ کیا گیا اس سے یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس Covid 19 اتنا خطرناک مرض نہیں جتنا  سمجھا جا رہا تھا بلکہ اس کی شرح اموات فقط %0.1 ہے۔ یعنی 1000 مریضوں میں فقط 1 مریض کے مرنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم ترین معاملہ ٹیسٹ کٹ کا بھی ہے۔ اس ٹیسٹ کٹ کے موجد کیری مولس جو کہ نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی ہدایات اور ٹیسٹ  کٹ بنانے والی کمپنی کے تعارفی کتابچے کے مطابق اس کا استعمال تحقیق  کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ تشخیص کےلیے۔ اور یہ  کٹ فقط جینیاتی مادے کا بتاتی ہے جس کی وجہ سے ملتے جلتے RNA وائرسز میں غلطی کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے روک تھام کے مرکزی ادارے (CDC) نے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ابتدا میں جو کٹس متعارف کروائیں وہ اس قدر ناقص تھی کہ وائٹ ہاؤس کی کوارڈینیٹر برائے کرونا وائرس ڈاکٹر بیریکس (Dr Birix) کو بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ ٹیسٹ کٹ %50 تک غلط نتیجہ دے سکتی ہیں ایسی ہی کچھ دیگر رپورٹس کی بنیاد پر فن لینڈ کی منسٹری آف ہیلتھ  نے 20 مارچ  کو  ان کٹس کے استعمال پر پابندی لگادی۔
اس کے علاوہ ان کٹس کا ایک اور مسلہ False Negative اور False Positive کا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیمار شخص کا نتیجہ صحت مند شخص جیسا اور ایک صحت مند شخص کا نتیجہ بیمار شخص جیسا بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ نئی کٹس کے مطابق دوسری صورتحال کا امکان کم ہے لیکن بہر حال امکان موجود ضرور ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے (JAMA)  کی 27 فروری کی اشاعت  میں موجود ہے کہ ووہان Wuhan  میں چار مریضوں کا ٹیسٹ منفی آیا تھا اور انہیں مریضوں کا دوبارہ 13 دن بعد  ٹیسٹ انہیں کٹس پر کیا گیا جو کہ مثبت تھا۔ اسی طرح پانچ مارچ کو New England journal of Medicine میں شائع ہوا کہ امریکہ کے ابتدائی مریض کی ناک سے نمونہ لیا گیا تو نتیجہ مثبت آیا  لیکن اسی مریض کے منہ سے جب نمونہ لیا گیا تو اس کا نتیجہ منفی آگیا۔  یعنی ایک ہی مریض کے دو مختلف نتائج۔ اسی طرح کے کئی اور ٹیسٹ بھی رپورٹ ہوئے۔
برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارہ Cochrane Collaboration ہے۔ جس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ ادارہ کسی بھی فارما کمپنی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتا اور نہ ہی ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے  جن کا تعلق کسی فارما کمپنی سے ہو یا ان کا سابقہ ملازم رہ چکا ہو۔ اس ادارہ کے موجودہ سربراہ پیٹر گوڈزے ( Peter Gotzhe)  کا ایک مضمون "کیا ہم بڑے پیمانے پرخوف کا شکار ہیں" (Are We Victims Of Mass Panic) کے عنوان سے برٹش میڈیکل جرنل (BMJ) کی 6 مارچ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں  "کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی. عجیب بیماری ہے کہ بہت سارے لوگ بغیر کسی علامت کے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف کسی 80 سال بوڑھے شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے جس کو دل کی بیماری یا اور کوئی مہلک بیماری بھی ہے۔ اب ایسے شخص کی موت کے بارے یہ رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ اس کی موت کرونا وائرس سے ہی ہوئی ہے یا دل کے عارضے سے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چین نے اپنے مریضوں کا ٹیسٹ ہی نہ کرایا ہوتا یا اس بیماری کا کوئی ٹیسٹ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ تو زندگی رواں دواں رہتی۔ ٹھیک ہے کچھ اموات ہوتیں لیکن غیر محسوس طریقے سے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق انفلوئنزا کی وجہ سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ جب کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کنفرم اموات کی شرح اس کے مقابلہ میں کافی کم ہے"
اسی طرح پروفیسر مائیکل لیویٹ Prof Michael Levitt جو کہ حیاتیاتی فزکس کے ماہر اور نو بل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس Covid 19 عام نزلہ زکام سے زیادہ خطرناک مرض نہیں ہے۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات ہر سال فلو سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت کرونا سے صرف وہی لوگ مر رہے ہیں جو پہلے ہی مختلف بیماریوں سے مرنے کے قریب تھے انہوں نے مزید کہا کہ کرونا کو عالمی وباء قرار دینا  دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے ۔
امریکہ کے ایک اور ڈاکٹر سکاٹ جینسن Dr Scott Jenson جو کہ سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست مینیسوٹا کی سٹیٹ میڈیکل ہیلتھ کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو  میں کہا کہ ایک 88  سالہ  مریض جو فلو انفیکشن  کی وجہ سے ہلاک ہوا تو منسٹری آف ہیلتھ کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ اس کی موت کی وجہ کرونا وائرس Covid 19 ظاہر کریں جب کہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ ان کے ایک تازہ انٹرویو کے مطابق حکومتی اداروں اور میڈیا نے جو خوف پھیلایا ہے اس کی وجہ سے مینیسوٹا اسٹیٹ میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
انسانی زندگی کے بچاؤ اور بقاء  کے نام سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر جو لاک ڈاؤن جاری ہے۔ وہ ایک طرف تو شدید خوف و ہراس  قائم کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف  کمزور ملکوں کے معاشی اقتصادی نظاموں کو مزید قرضوں کی معیشت میں پھنسانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کیا لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟ جی نہیں! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کمزور جراثیم کے خلاف لاک ڈاؤن کے علاوہ بھی حکمت عملی موجود ہے۔  جس کی مثال سویڈن اور جاپان ہیں۔انہوں نے بغیر لاک ڈاؤن کے ہی کامیابی حاصل کی۔ جاپان کا اگر ہم تجزیہ کریں تو  یہ وائرس جاپان میں 16 جنوری کو نمودار ہوا  جبکہ اٹلی میں31جنوری کو پہلا کیس سامنے آیا تھا۔جاپان نے نہ تو لاک ڈاؤن کیا اور نہ ہی خوف پھیلایا بلکہ جاپان نے کلسٹر ماڈل اپنایا۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ ایسے لوگوں کے نمونے لیے جو کہ کسی بیمار شخص کے قریب رہ چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں وائرس نہیں پایا گیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن میں وائرس پایا گیا اگر وہ کسی مریض شخص کے قریب رہے ہوں۔ اس انکشاف کو مد نظر رکھ کر انھوں نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ تمام مریضوں میں بیماری منتقل کرنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا جاپان کے شعبہ صحت نے ابتدا میں ان گروپوں کا پتا لگایا جو زیادہ بیماری پھیلانے کے مرتکب ہوئے اور ان کو آئسولیشن میں رکھا۔ جب کہ اسی کے ساتھ ساتھ عوام کو ماسک پہننے، کم ہوا دار بند جگہوں پر نہ جانے اور بہت زیادہ رش سے اجتناب کرنے کی تاکید کی۔ لیکن انڈسٹری، سکول اور کالجز اور دفاتر کو بند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج کے دن تک کل 13000 کے لگ بھگ لوگ اس مرض کا شکار ہوئے اور کل 682 لوگوں کی اموات ہوئیں۔  اسی طرح سویڈن نے بھی بہت معمولی پابندیاں لگائیں لیکن لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ اور ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity)  کی حکمت عملی کے ذریعے سے اس کا مقابلہ کیا۔ ہرڈ امیونٹی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک نارمل انسان کی قوت مدافعت  اس قابل ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی بیماری کا مقابلہ کرسکے۔ پھر ایسی بیماریاں جس کی وجہ سے شرح اموات کم ہوں اس میں یہ طریقہ کار زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اور جب معاشرے کی ایک مخصوص تعداد (٪60-٪70)  اس بیماری  کا شکار ہوجاتی ہے تو انسانی جسم میں اس جراثیم کے خلاف ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں کہ یا تو اس کا حملہ غیر مؤثر ہو جاتا ہے یا پھر اس کی شدت اتنی کم ہوجاتی ہے کہ مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔سٹاک ہوم جو کہ سویڈن کا دارالخلافہ ہے، ہرڈ ایمونٹی کے قریب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے مریضوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے آپ صرف بیماری کو ملتوی کر سکتے ہیں لیکن ختم نہیں کر سکتے۔ لاک ڈاؤن صرف ایک محدود مدت کے لیے فاعدہ مند تو ہوسکتا ہے کہ بیماری کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرکے آپ مطلوبہ تیاری کرلیں لیکن یہ مستقل حل ہر گز نہیں ہے بلکہ زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام اور اس کی پشت پر کھڑا میڈیا ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ہرڈ امیونٹی کو موقع دیا جائے کیوں کہ پھر وہ خوف نہیں بیچا جا سکتا جو کہ وہ بیچنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ دنیا کو مزید غلام بنانا چاہتا ہے
ایک قابل ذکر نکتہ یہ  بھی ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے تک دنیا بھر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ  کے ارد گرد ہی رہتی ہے لیکن جب عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے کرونا وائرس سے متأثرہ معیشتوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے تو 15مارچ تک مریضوں کی تعداد اچانک 3 لاکھ اور پھر 9 لاکھ تک پہنچ جاتی ہےاور اب بھی بدستور یہ تعداد بڑھ رہی ہے یعنی وائرس اور امداد کے نام پر قرضوں کے جال کا کوئی نہ کوئی گٹھ جوڑ ضرور ہے
اب ہمارے سامنے عالمی آلہ کار میڈیا کے بجائے سائنسی ثبوت اور ڈیٹا موجود ہے تو یہ حقیقت واضح ہوتی  ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر کرونا وائرس کو کائنات کا دشمن نمبر ایک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے  اور اس کے خاتمے کے لیے کثیر القومی فارما کمپنیوں کو امریکہ کی چھتری تلے ایسے تیار کر رہا ہے جیسے ماضی  میں اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکہ ویتنام عراق لیبیا اور شام پر کیمیائی ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنےکے جھوٹے الزامات لگا کر حملہ آور ہوا تھا ۔ اس مرتبہ میدان اور کمپنیاں مختلف ہیں۔ کبھی اگر اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکی نظام عالمی سرمایہ دار اتحادیوں کے ذریعے حملہ آور ہوتا تھا۔ تو آج اس نے کثیر القومی فارما کمپنیوں کے ذریعے مختلف میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکہ کی اسلحہ کی صنعت اور ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں چیلنج ہو چکی ہے اور اس کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے  اب دنیا کے بہت سارے ممالک اسلحہ بناتے اور فروخت کرتے ہیں اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے جو اسلحہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔
اب اگر ہم عالمی فارما کمپنیوں کا نظام دیکھیں تو امریکہ اور اس کے یورپین اتحادیوں کے علاوہ عالمی سطح پر ان کا کوئی خاطر خواہ مد مقابل موجود نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ سوشلسٹ بلاک کے ممالک کااپنے ابتدائی دور  میں صحت عامہ کے شعبے کو کمرشل بنیادوں پر استوار نہ کرنا ہے۔
تاہم یہ ماضی کی بات ہے اب تو کیوبا کے علاوہ ان ممالک میں بھی صحت کا شعبہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے بلکہ چین ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اب ان کے ہاں بھی علاج کافی مہنگا  ہے تاہم اپنے ابتدائی مزاج کی وجہ سے ان کی کمپنیوں کا کوئی خاطر خواہ عالمی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
لہذا اس میدان کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہ بھی ہےاور اس کی ابتدائی اقساط 70 کی دہائی سے عالمی سرمایہ دار فارما کمپنیوں کی طرف سے شروع ہو چکی تھیں اور 80 کی دہائی سے انہوں نے یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ ایک سیریز میدان میں اتاری۔ مثلا ایڈز , زیکا(Zica)،اینتھراکس، H1N1  وغیرہ اور اب کرونا وائرس Covid 19 . برٹش میڈیکل جنرل (BMJ) کے مطابق سوائن فلو سے عالمی فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالر کمائے اور سوائن فلو کی گائیڈ لائن بھی WHO نے جاری کی تھیں اور جن 3 سائنسدانوں نے اس کی ہدایات مرتب کی تھیں ان کو (Roche) اور (GSK)  فارما نے فنڈز فراہم کیے تھے بعد ازاں ان تینوں سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ سوائن فلو اتنا خطرناک نہیں تھا۔ جس طرح سے اسے پیش کیا گیا تھا۔ اور اب Covid 19 کی تیاری  پچھلی دہائی سے جاری ہے۔ بل گیٹس نے 2015 میں اپنی ایک پریزنٹیشن میں ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبیہ کی تھی اور پھر اس وائرس کی پروڈکشن پر گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے کام شروع ہوا ۔
اکتوبر 2019 کو نیویارک میں ایونٹ (Event 201) کے نام سے سے  ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں حیاتیاتی  جنگ کا ایک نقشہ بنایا گیا اور پھر اس سے نمٹنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی اور پھر دو ماہ بعد ہی یہ وائرس مارکیٹ میں آگیا۔
اب اس لاک ڈاؤن کا فاعدہ ایک طرف جہاں عالمی فارما کمپنیاں اٹھائیں گی تو دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے اور اس کے لیے مطلوبہ فنڈنگ بھی ہو چکی ہے ۔
اس سلسلے میں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے خوف کو بڑی سطح پر  بیچا جا چکا ہے اور مزید بھی بیچا جارہا ہے تاکہ دنیا کی اربوں کی آبادی ویکسین کو آب حیات سمجھ کر خریدنے کے لیے بے تاب ہو جائے اور دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل اور بجٹ میں باقاعدہ کرونا وائرس کے لیے فنڈز متعین ہو جائیں اور عالمی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں کہ مختلف سروسز اور بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسین کی شرط کو  لازمی قرار دیا جائے
اب رہا یہ سوال کہ سائنسی میڈیکل جریدوں اور ڈاکومنٹس کے حوالہ جات ، نوبل انعام یافتہ پروفیسروں کی دوٹوک رائے،جاپان اور سویڈن کی کامیابی پر مین سٹریم میڈیا میں خاموشی کیوں ہے؟ اور WHO ان حقائق پر خاموش کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ WHO اور آلہ کارمیڈیا کی ان حقائق پر خاموشی اس کے پس پشت سرمایہ پرستانہ استحصال کو بے نقاب کر رہی ہے۔
لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے جن کے ہر خوبصورت نعرے اور عمل کے پیچھے صرف سرمایہ کمانے اور استحصال کرنے کا ہی  مقصد کارفرما ہوتا ہے۔
By Saqib mehfooz Published on May 16, 2020 Views 53

کرونا وائرس، سائنسی حقائق اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام
تحریر: ثاقب محفوظ ۔ پشاور

کرونا وائرس (Covid 19)  کے متعلق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO), امریکہ اور یورپی ممالک نے عالمی میڈیا کے ذریعے جو خوف  پھیلا رکھا ہے وہ اب بھی لاک ڈاؤن کی شکل میں موجود ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس نئی بیماری یا یوں کہیے کہ پرانی بیماری کی اس نئی شکل کو ایک عالمی وبا قرار دیا ہےاور اسے COVID19 کا نام دیا ہے۔ ویسےتو مین سٹریم میڈیاپراس کے بارے میں بہت کچھ موجود ہے۔ لیکن آج ہم اس کا میڈیا سے ہٹ کر میڈیکل سائنس کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔
امریکہ کے مرکزی ادارہ برائے امراض (CDC) کے اعداد و شمار کے مطابق ایسی تمام وجوہات جو فلوکا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے سال (17-2016) میں 5 لاکھ۔ (18-2017) میں 8لاکھ۔ (19-2018) میں 5 لاکھ۔ اور اب (20-2019) کے فلو کے مخصوص موسم میں، جس میں کرونا وائرس کی وجہ سے بیمار مریض  بھی شامل ہیں، اب تک 5 لاکھ 25 ہزار مریض ہسپتال میں داخل ہوئے ہیں۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ نئی وبا کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے مریضوں کی اوسط تعداد جنھیں ہسپتالوں میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے، میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنےکو نہیں ملا۔
دوسری طرف امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے(JAMA)  کی 13 مارچ 2020 کے شمارہ کے اداریے میں یہ بات درج ہے کہ اٹلی کے علاقے لمبارڈی (جو کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متأثر ہوا ہے) کے تمام ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ فلو کے موسم میں  %90-%85  فلو کے مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ اس نئی بیماری سے یقینا انتہائی نگہداشت کے وارڈز پر  بوجھ ضرور پڑا ہےلیکن اس مخصوص سیزن میں وہاں مریضوں کا انتہائی نگہداشت وارڈز میں داخل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
اس سے بھی زیادہ حیران کن حقائق یہ ہیں کہ اگر  ہم اطالوی قومی ادارہ صحت (National Health Institute of Italy) کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں تویہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اٹلی میں 31 مارچ 2020 تک کل 11500 اموات رجسٹرڈ ہوئیں۔ جن میں فقط %12 یعنی 1380  اموات کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں موت کی وجہ کرونا وائرس لکھا گیا ہے جب کہ 10120مریض انفلوئنزہ جیسی بیماری والے گروپ میں تو ہیں لیکن ان کی موت کی وجہ کرونا وائرس نہیں ہے۔
اب ہم برطانیہ کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں پر جنوری 2020 میں حکومت کے قائم کردہ ماہرین کے ایک مشاورتی بورڈ (New & Emerging Virus Threat Advisory Group) کی طرف سے ایک تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ جس کے مطابق آنے والے  2 ماہ کے دوران امریکہ  میں 22 لاکھ اور برطانیہ میں 5 لاکھ اموات کرونا وائرس کی وجہ سے ہو سکتی ہیں.
اسی طرح کی ایک اور رپورٹ امریکہ کے بیماریوں کی روک تھام کے مرکزی ادارے ( CDC) کی طرف سے بھی جاری ہوتی ہے۔ جس کے مطابق امریکہ میں 17 لاکھ اموات ہو سکتی ہیں۔
انھی رپورٹس کو بنیاد بنا کر برطانیہ نے کورونا وائرس کو انتہائی خطرناک متعدی بیماری کے زمرے میں شامل کرکے اپنے ملک کے شعبہ صحت کی ویب سائٹ پر ڈالا اور یہی چیز وجہ بنی اس شدید لاک ڈاؤن کی جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔
لیکن کچھ ماہ بعد جب امریکہ، برطانیہ، یورپ  اور دیگر ممالک کے اعدادوشمار سامنے آئے تو برطانوی حکومت نے حقیقت کو جانتے ہوئے کرونا وائرس Covid 19  کو ایک سادہ سا فلو قرار دیا اور نہایت خاموشی سےکرونا وائرس کی بیماری کو انتہائی خطرناک متعدی امراض کے زمرے سے نکال کر ایک عام فلو قرار دیا۔ اور حال ہی میں روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق غلط اعداد وشمار دینے کی پاداش میں امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر نیل فرگوسن کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا
26 مارچ کو شعبہ طب کے ایک نامور جریدے New England Journal of Medicine  اور 27 مارچ کی The Lancet کی اشاعت میں چین میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والے ابتدائی پانچ سو مریضوں کے ڈیٹا کا جو تجزیہ کیا گیا اس سے یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس Covid 19 اتنا خطرناک مرض نہیں جتنا  سمجھا جا رہا تھا بلکہ اس کی شرح اموات فقط %0.1 ہے۔ یعنی 1000 مریضوں میں فقط 1 مریض کے مرنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
ایک اور اہم ترین معاملہ ٹیسٹ کٹ کا بھی ہے۔ اس ٹیسٹ کٹ کے موجد کیری مولس جو کہ نوبل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کی ہدایات اور ٹیسٹ  کٹ بنانے والی کمپنی کے تعارفی کتابچے کے مطابق اس کا استعمال تحقیق  کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ تشخیص کےلیے۔ اور یہ  کٹ فقط جینیاتی مادے کا بتاتی ہے جس کی وجہ سے ملتے جلتے RNA وائرسز میں غلطی کا احتمال بہر حال موجود رہتا ہے۔
امریکہ میں بیماریوں کے روک تھام کے مرکزی ادارے (CDC) نے کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے ابتدا میں جو کٹس متعارف کروائیں وہ اس قدر ناقص تھی کہ وائٹ ہاؤس کی کوارڈینیٹر برائے کرونا وائرس ڈاکٹر بیریکس (Dr Birix) کو بھی مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ ٹیسٹ کٹ %50 تک غلط نتیجہ دے سکتی ہیں ایسی ہی کچھ دیگر رپورٹس کی بنیاد پر فن لینڈ کی منسٹری آف ہیلتھ  نے 20 مارچ  کو  ان کٹس کے استعمال پر پابندی لگادی۔
اس کے علاوہ ان کٹس کا ایک اور مسلہ False Negative اور False Positive کا بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیمار شخص کا نتیجہ صحت مند شخص جیسا اور ایک صحت مند شخص کا نتیجہ بیمار شخص جیسا بھی آسکتا ہے۔ اگرچہ نئی کٹس کے مطابق دوسری صورتحال کا امکان کم ہے لیکن بہر حال امکان موجود ضرور ہوتا ہے۔ اس کی طرف اشارہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جریدے (JAMA)  کی 27 فروری کی اشاعت  میں موجود ہے کہ ووہان Wuhan  میں چار مریضوں کا ٹیسٹ منفی آیا تھا اور انہیں مریضوں کا دوبارہ 13 دن بعد  ٹیسٹ انہیں کٹس پر کیا گیا جو کہ مثبت تھا۔ اسی طرح پانچ مارچ کو New England journal of Medicine میں شائع ہوا کہ امریکہ کے ابتدائی مریض کی ناک سے نمونہ لیا گیا تو نتیجہ مثبت آیا  لیکن اسی مریض کے منہ سے جب نمونہ لیا گیا تو اس کا نتیجہ منفی آگیا۔  یعنی ایک ہی مریض کے دو مختلف نتائج۔ اسی طرح کے کئی اور ٹیسٹ بھی رپورٹ ہوئے۔
برطانیہ میں ایک پرائیویٹ ادارہ Cochrane Collaboration ہے۔ جس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ ادارہ کسی بھی فارما کمپنی سے کوئی مالی امداد نہیں لیتا اور نہ ہی ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے  جن کا تعلق کسی فارما کمپنی سے ہو یا ان کا سابقہ ملازم رہ چکا ہو۔ اس ادارہ کے موجودہ سربراہ پیٹر گوڈزے ( Peter Gotzhe)  کا ایک مضمون "کیا ہم بڑے پیمانے پرخوف کا شکار ہیں" (Are We Victims Of Mass Panic) کے عنوان سے برٹش میڈیکل جرنل (BMJ) کی 6 مارچ کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں  "کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کے بارے میں حتمی رائے نہیں دی جا سکتی. عجیب بیماری ہے کہ بہت سارے لوگ بغیر کسی علامت کے صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف کسی 80 سال بوڑھے شخص کی موت واقع ہوجاتی ہے جس کو دل کی بیماری یا اور کوئی مہلک بیماری بھی ہے۔ اب ایسے شخص کی موت کے بارے یہ رائے قائم کرنا مشکل ہے کہ اس کی موت کرونا وائرس سے ہی ہوئی ہے یا دل کے عارضے سے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ چین نے اپنے مریضوں کا ٹیسٹ ہی نہ کرایا ہوتا یا اس بیماری کا کوئی ٹیسٹ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا۔ تو زندگی رواں دواں رہتی۔ ٹھیک ہے کچھ اموات ہوتیں لیکن غیر محسوس طریقے سے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق انفلوئنزا کی وجہ سے سالانہ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ جب کہ کرونا وائرس کی وجہ سے کنفرم اموات کی شرح اس کے مقابلہ میں کافی کم ہے"
اسی طرح پروفیسر مائیکل لیویٹ Prof Michael Levitt جو کہ حیاتیاتی فزکس کے ماہر اور نو بل انعام یافتہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس Covid 19 عام نزلہ زکام سے زیادہ خطرناک مرض نہیں ہے۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے والی اموات ہر سال فلو سے ہونے والی اموات سے زیادہ ہیں۔ درحقیقت کرونا سے صرف وہی لوگ مر رہے ہیں جو پہلے ہی مختلف بیماریوں سے مرنے کے قریب تھے انہوں نے مزید کہا کہ کرونا کو عالمی وباء قرار دینا  دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے ۔
امریکہ کے ایک اور ڈاکٹر سکاٹ جینسن Dr Scott Jenson جو کہ سینیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ریاست مینیسوٹا کی سٹیٹ میڈیکل ہیلتھ کے سربراہ بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک انٹرویو  میں کہا کہ ایک 88  سالہ  مریض جو فلو انفیکشن  کی وجہ سے ہلاک ہوا تو منسٹری آف ہیلتھ کی طرف سے ان پر دباؤ تھا کہ اس کی موت کی وجہ کرونا وائرس Covid 19 ظاہر کریں جب کہ حقیقت یہ نہیں تھی۔ ان کے ایک تازہ انٹرویو کے مطابق حکومتی اداروں اور میڈیا نے جو خوف پھیلایا ہے اس کی وجہ سے مینیسوٹا اسٹیٹ میں خودکشی کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
انسانی زندگی کے بچاؤ اور بقاء  کے نام سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات پر جو لاک ڈاؤن جاری ہے۔ وہ ایک طرف تو شدید خوف و ہراس  قائم کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف  کمزور ملکوں کے معاشی اقتصادی نظاموں کو مزید قرضوں کی معیشت میں پھنسانے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ کیا لاک ڈاؤن ہی واحد حل ہے؟ جی نہیں! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اس کمزور جراثیم کے خلاف لاک ڈاؤن کے علاوہ بھی حکمت عملی موجود ہے۔  جس کی مثال سویڈن اور جاپان ہیں۔انہوں نے بغیر لاک ڈاؤن کے ہی کامیابی حاصل کی۔ جاپان کا اگر ہم تجزیہ کریں تو  یہ وائرس جاپان میں 16 جنوری کو نمودار ہوا  جبکہ اٹلی میں31جنوری کو پہلا کیس سامنے آیا تھا۔جاپان نے نہ تو لاک ڈاؤن کیا اور نہ ہی خوف پھیلایا بلکہ جاپان نے کلسٹر ماڈل اپنایا۔ ابتدا میں انھوں نے کچھ ایسے لوگوں کے نمونے لیے جو کہ کسی بیمار شخص کے قریب رہ چکے تھے لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں وائرس نہیں پایا گیا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن میں وائرس پایا گیا اگر وہ کسی مریض شخص کے قریب رہے ہوں۔ اس انکشاف کو مد نظر رکھ کر انھوں نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ تمام مریضوں میں بیماری منتقل کرنے کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس مفروضے کو بنیاد بنا جاپان کے شعبہ صحت نے ابتدا میں ان گروپوں کا پتا لگایا جو زیادہ بیماری پھیلانے کے مرتکب ہوئے اور ان کو آئسولیشن میں رکھا۔ جب کہ اسی کے ساتھ ساتھ عوام کو ماسک پہننے، کم ہوا دار بند جگہوں پر نہ جانے اور بہت زیادہ رش سے اجتناب کرنے کی تاکید کی۔ لیکن انڈسٹری، سکول اور کالجز اور دفاتر کو بند نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج کے دن تک کل 13000 کے لگ بھگ لوگ اس مرض کا شکار ہوئے اور کل 682 لوگوں کی اموات ہوئیں۔  اسی طرح سویڈن نے بھی بہت معمولی پابندیاں لگائیں لیکن لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ اور ہرڈ امیونٹی (Herd Immunity)  کی حکمت عملی کے ذریعے سے اس کا مقابلہ کیا۔ ہرڈ امیونٹی کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک نارمل انسان کی قوت مدافعت  اس قابل ہوتی ہے کہ وہ کسی قسم کی بیماری کا مقابلہ کرسکے۔ پھر ایسی بیماریاں جس کی وجہ سے شرح اموات کم ہوں اس میں یہ طریقہ کار زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ اور جب معاشرے کی ایک مخصوص تعداد (٪60-٪70)  اس بیماری  کا شکار ہوجاتی ہے تو انسانی جسم میں اس جراثیم کے خلاف ایسی اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں کہ یا تو اس کا حملہ غیر مؤثر ہو جاتا ہے یا پھر اس کی شدت اتنی کم ہوجاتی ہے کہ مزید نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔سٹاک ہوم جو کہ سویڈن کا دارالخلافہ ہے، ہرڈ ایمونٹی کے قریب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے مریضوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے آپ صرف بیماری کو ملتوی کر سکتے ہیں لیکن ختم نہیں کر سکتے۔ لاک ڈاؤن صرف ایک محدود مدت کے لیے فاعدہ مند تو ہوسکتا ہے کہ بیماری کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کرکے آپ مطلوبہ تیاری کرلیں لیکن یہ مستقل حل ہر گز نہیں ہے بلکہ زیادہ نقصان کا باعث ہے۔ لیکن سرمایہ داری نظام اور اس کی پشت پر کھڑا میڈیا ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ ہرڈ امیونٹی کو موقع دیا جائے کیوں کہ پھر وہ خوف نہیں بیچا جا سکتا جو کہ وہ بیچنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ دنیا کو مزید غلام بنانا چاہتا ہے
ایک قابل ذکر نکتہ یہ  بھی ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے تک دنیا بھر کے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ  کے ارد گرد ہی رہتی ہے لیکن جب عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے کرونا وائرس سے متأثرہ معیشتوں کے لیے امداد کا اعلان کیا جاتا ہے تو 15مارچ تک مریضوں کی تعداد اچانک 3 لاکھ اور پھر 9 لاکھ تک پہنچ جاتی ہےاور اب بھی بدستور یہ تعداد بڑھ رہی ہے یعنی وائرس اور امداد کے نام پر قرضوں کے جال کا کوئی نہ کوئی گٹھ جوڑ ضرور ہے
اب ہمارے سامنے عالمی آلہ کار میڈیا کے بجائے سائنسی ثبوت اور ڈیٹا موجود ہے تو یہ حقیقت واضح ہوتی  ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر کرونا وائرس کو کائنات کا دشمن نمبر ایک ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے  اور اس کے خاتمے کے لیے کثیر القومی فارما کمپنیوں کو امریکہ کی چھتری تلے ایسے تیار کر رہا ہے جیسے ماضی  میں اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکہ ویتنام عراق لیبیا اور شام پر کیمیائی ہتھیار رکھنے یا استعمال کرنےکے جھوٹے الزامات لگا کر حملہ آور ہوا تھا ۔ اس مرتبہ میدان اور کمپنیاں مختلف ہیں۔ کبھی اگر اسلحہ ساز کمپنیوں کی پشت پناہی پر امریکی نظام عالمی سرمایہ دار اتحادیوں کے ذریعے حملہ آور ہوتا تھا۔ تو آج اس نے کثیر القومی فارما کمپنیوں کے ذریعے مختلف میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکہ کی اسلحہ کی صنعت اور ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں چیلنج ہو چکی ہے اور اس کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے  اب دنیا کے بہت سارے ممالک اسلحہ بناتے اور فروخت کرتے ہیں اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے جو اسلحہ ایکسپورٹ کرتا ہے۔
اب اگر ہم عالمی فارما کمپنیوں کا نظام دیکھیں تو امریکہ اور اس کے یورپین اتحادیوں کے علاوہ عالمی سطح پر ان کا کوئی خاطر خواہ مد مقابل موجود نہیں ہے اور اس کی ایک وجہ سوشلسٹ بلاک کے ممالک کااپنے ابتدائی دور  میں صحت عامہ کے شعبے کو کمرشل بنیادوں پر استوار نہ کرنا ہے۔
تاہم یہ ماضی کی بات ہے اب تو کیوبا کے علاوہ ان ممالک میں بھی صحت کا شعبہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے بلکہ چین ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اب ان کے ہاں بھی علاج کافی مہنگا  ہے تاہم اپنے ابتدائی مزاج کی وجہ سے ان کی کمپنیوں کا کوئی خاطر خواہ عالمی نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
لہذا اس میدان کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہ بھی ہےاور اس کی ابتدائی اقساط 70 کی دہائی سے عالمی سرمایہ دار فارما کمپنیوں کی طرف سے شروع ہو چکی تھیں اور 80 کی دہائی سے انہوں نے یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ ایک سیریز میدان میں اتاری۔ مثلا ایڈز , زیکا(Zica)،اینتھراکس، H1N1  وغیرہ اور اب کرونا وائرس Covid 19 . برٹش میڈیکل جنرل (BMJ) کے مطابق سوائن فلو سے عالمی فارما کمپنیوں نے 7 ارب ڈالر کمائے اور سوائن فلو کی گائیڈ لائن بھی WHO نے جاری کی تھیں اور جن 3 سائنسدانوں نے اس کی ہدایات مرتب کی تھیں ان کو (Roche) اور (GSK)  فارما نے فنڈز فراہم کیے تھے بعد ازاں ان تینوں سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ سوائن فلو اتنا خطرناک نہیں تھا۔ جس طرح سے اسے پیش کیا گیا تھا۔ اور اب Covid 19 کی تیاری  پچھلی دہائی سے جاری ہے۔ بل گیٹس نے 2015 میں اپنی ایک پریزنٹیشن میں ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت کی تنبیہ کی تھی اور پھر اس وائرس کی پروڈکشن پر گیٹس فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے کام شروع ہوا ۔
اکتوبر 2019 کو نیویارک میں ایونٹ (Event 201) کے نام سے سے  ایک ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں حیاتیاتی  جنگ کا ایک نقشہ بنایا گیا اور پھر اس سے نمٹنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی گئی اور پھر دو ماہ بعد ہی یہ وائرس مارکیٹ میں آگیا۔
اب اس لاک ڈاؤن کا فاعدہ ایک طرف جہاں عالمی فارما کمپنیاں اٹھائیں گی تو دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے اور اس کے لیے مطلوبہ فنڈنگ بھی ہو چکی ہے ۔
اس سلسلے میں مین سٹریم میڈیا کے ذریعے خوف کو بڑی سطح پر  بیچا جا چکا ہے اور مزید بھی بیچا جارہا ہے تاکہ دنیا کی اربوں کی آبادی ویکسین کو آب حیات سمجھ کر خریدنے کے لیے بے تاب ہو جائے اور دنیا بھر کے ملکوں کے وسائل اور بجٹ میں باقاعدہ کرونا وائرس کے لیے فنڈز متعین ہو جائیں اور عالمی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں کہ مختلف سروسز اور بین الاقوامی سفر کے لیے ویکسین کی شرط کو  لازمی قرار دیا جائے
اب رہا یہ سوال کہ سائنسی میڈیکل جریدوں اور ڈاکومنٹس کے حوالہ جات ، نوبل انعام یافتہ پروفیسروں کی دوٹوک رائے،جاپان اور سویڈن کی کامیابی پر مین سٹریم میڈیا میں خاموشی کیوں ہے؟ اور WHO ان حقائق پر خاموش کیوں ہے؟ تو بات یہ ہے کہ WHO اور آلہ کارمیڈیا کی ان حقائق پر خاموشی اس کے پس پشت سرمایہ پرستانہ استحصال کو بے نقاب کر رہی ہے۔
لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہر شعبہ زندگی سے سرمایہ پرستی اور سرمایہ داریت کے نظام کا خاتمہ ہو اور عالمگیر انسانی فطرت  کے فلسفہ کے تحت قومی بنیادوں پر آزاد اور مستحکم نظام تشکیل دیے جائیں تاکہ عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی فارما کمپنیوں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے قائم اس استحصالی نظام  سے نجات مل سکے جن کے ہر خوبصورت نعرے اور عمل کے پیچھے صرف سرمایہ کمانے اور استحصال کرنے کا ہی  مقصد کارفرما ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں