پیر، 11 مئی، 2020

استور . ان لوگوں نے ( انتظامیہ اور محکمہ صحت جی بی ) مجهے مار ڈالا . کرونا کے مریض کو قرطینہ سے ہسپتال منتقلی کے وقت کا بیان .اور اگل ہی دن شہید ہوا استور کے عبد الخالق

گلگت
 تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ تنویر احمد  ۔۔۔۔۔
*مجھے لگتا ہے کہ اب میرا بچنا نا ممکن ہے ،ان لوگوں نے مجھے مار ڈالا*
 گلگت بلتستان کے تین اضلاع کورونا فری ہوگئے ہیں لیکن صوبائی حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے استور کو تباہ کن حالات کا سامنا ہے۔  استور میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 70 سے تجاوز کرگئی ہے۔
 محکمہ صحت کی تفصیلات کے مطابق جی بی کے تین اضلاع کھرمنگ ، نگر اور ہنزہ خطے کے COVID19 فری اضلاع بن گئے ہیں ، جبکہ ضلع استور میں اب بھی انتہائی گھمبیر صورتحال کا سامنا ہے اور حکومت نے استور کو ریڈ زون قرار دیا ہے ضلع بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 79 تک جا پہنچی ہے۔  جمعہ کے روز استور کے دور دراز اور سرحد پر واقع علاقے منی مرگ کے چھوٹے  سے گاوں نگئئ سے تعلق رکھنے والے عبد الخالق کا ڈی ایچ کیو ہسپتال استور میں کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔
 ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق 55 سالہ عبدالخالق پیشے سے کسان تھا اور وہ چھوٹے چھوٹے ٹھیکوں سے اپنے کنبہ کی کفالت کرتا تھا۔  خالق اپنے آبائی گاؤں کا ایک معروف سماجی کارکن اور لمبردار بھی تھا وہ ہر دل عزیز تھا کیوں کہ وہ ملنسار اور ہر ایک سے محبت کرتا تھا۔ وہ 28 اپریل 2020 کو اپنے خاندان کے پانچ افراد( بیوی ، بیٹی ، دو بیٹے اور بہو ) سمیت استور پہنچا تھا اور انہیں انتظامیہ نے بغیر کسی بنیادی سہولت کے قائم کئے گئے گوریکوٹ کے ایک قرنطینہ مرکز میں رکھا تھا۔ اس دوران چونکہ وہ بیمار تھا اور اس پر کورونا وائرس کے اثرات ظاہر ہونے لگے بعد میں ، کورونا وائرس کے نتائج زیادہ واضح ہوگئے۔   خاندانی ذرائع کے مطابق ، وہ پیر 4 مئی 2020 کو قرنطینہ مرکز میں شدید درد میں تھے اس دوران ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے دو بار مرکز کا دورہ کیا لیکن ان کی درخواست کے باوجود ان کی حالت کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور ٹیم نے انہیں آئسولیشن مرکز  منتقل نہیں کیا۔  تنہائی مرکز میں جمعرات ، 08 مئی ، 2020 کو وہ زیادہ بیمار ہوگئے ، اور پھر ڈاکٹروں کو ہوش آیا اور انہیں ڈی ایچ کیو اسپتال استور کے آئسولیشن وارڈ منتقل کیا گیا اور اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔  ذرائع نے بتایا کہ انھیں قرنطین مرکز سے اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ اس دوران متوفی عبدالخالق نے اپنے ایک رشتے دار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ، ’’ مجھے لگتا ہے کہ اب میرا بچنا ناممکن ہے ان لوگوں (ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت) نے مجھے  مار ڈالا "۔ خاندانی ذرائع کے مطابق عبد الخالق کو دل کی بیماری ، ہائی بلڈ پریشر اور یورک ایسڈ کی شکایات تھیں۔  جب اسے قرنطینہ مرکز منتقل کیا گیا تو اس کا جوان بیٹا صغیر بھی اس کے ساتھ تھا یہاں تک کہ اس نے آخری سانس لی۔
 خاندانی ذرائع نے یہ بھی بتایا جیسا کہ ان کے بیٹے نے ان سے بیان کیا تھا "آئسولیشن وارڈ میں جب تیز بخار اور شدید کھانسی کی وجہ سے درد بہت زیادہ ہونے لگا تو مرنے والے باپ(عبدالخالق) نے اپنے لاچار بیٹے سے کہا '' یہ میرا آخری وقت ہے تم  کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دو اس (بیٹے) نے کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کیا تو دم توڑتا  (عبد الخالق) نے بھی کلمہ شہادت پڑھنا شروع کیا تاہم اس دوران عبد الخالق کی آواز کم ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گیا اسی اثنا میں ، بیچارہ بیٹا زور سے رونے لگا اور وارڈ عملہ اس کی چینخ کی آواز سن کر نا چاہتے ہوئے بھی وارڈ میں داخل ہوا اور اسے (بیٹے) کو وارڈ سے باہر نکالا لیکن تب تک اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہسپتال عملہ نے بیٹے کو بتایا کہ ان کے والد ٹھیک ہیں انہیں پھر سے وینٹیلیٹر پر ڈال دیا گیا ہے۔ جس پر بیٹے کو کچھ تسلی ہو گئی لیکن یہ تسلی عارضی ثابت ہوئی۔
 صغیر ، اس کی والدہ ، اور اس کے کنبے کے تین دیگر افراد بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے کو استور سے گلگت روانہ کیا گیا اور اب یہ بدقسمت خاندان جوٹیال  گلگت کے اآئسولیشن مرکز میں زیر علاج ہے۔ اس دوران حکومت اور انتظامیہ متحرک ہو گئی جو شائد پہلے فعال ہوتے تو عبدالخالق شاید اس مہلک وباء سے لڑ کر بچ سکتا تھا ، عبدالخالق کے جسد خاکی کو استور سے آبائی گاوں نگئئ روانہ کیا گیا اور افطار کے وقت ان کی ایس او پی کے تحت تدفین کی گئی ۔
ادھر صغیر اس کی والدہ اور بہن بھائی اس آس میں تھے کہ اس کے والد وینٹیلیٹر سے صحت یاب ہوجائیں گے اور پھر سے ان کے درمیان ہوں گے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی پسند تھا۔  ذرائع نے بتایا کہ عبدالخالق کی موت کی اطلاع ان کے اہل خانہ کو فون پر ان کے چھوٹے بھائی نے دی۔ یہ منظر اہل خانہ کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا ۔
 خاندانی ذرائع کے مطابق سردیوں کے دوران عبد الخالق اپنے اہل خانہ کے ساتھ راولپنڈی کے علاقے اڈیالہ میں مقیم تھا جہاں اس کا ایک دوست مقدس مقامات کی زیارت کے بعد ایران سے آیا تھا۔  اس نے اپنے زائر دوست کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں اور وہ دونوں پنڈی کے بازاروں میں بھی گھومتے پھرتے رہے اس لئے یہ بہت ممکن ہے کہ وہ راولپنڈی میں اس وائرس کا شکار ہوگیا تھا۔
عبدالخالق کی موت کے فوری بعد اسی دن ، سوشل میڈیا پر یہ خبریں چلنا شروع ہوگئیں کہ ڈی ایچ کیو اسپتال استور میں وینٹیلیٹر چلانے کے لئے کوئی ماہر عملہ نہیں ہے۔  عوامی فنڈ ریزنگ مہم کے تحت استور ہسپتال کو حال ہی میں وینٹیلیٹر فراہم کیا گیا ہے۔
 عبدالخالق کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ استور انتظامیہ اور محکمہ صحت کی لاپرواہی کی وجہ سے انہوں نے اپنے پیارے فرد کو کھو دیا جو وہ اب کبھی واپس نہیں لوٹیں گے وہ تناؤ کی حالت میں ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ انہیں اس دنیا میں کبھی انصاف نہیں ملے گا لیکن ایک دن اللہ (قیامت کے دن) انصاف ضرور کریں گے۔
 عبد الخالق کی موت نے صوبائی حکومت ، صوبائی انتظامیہ اور خاص طور پر ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت استور کی کارکردگی کے بارے میں بہت سارے سوالات کھڑے کئے ہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک کے دیگر شہروں سے استور آنے والے افراد میں سے صرف سرحدی علاقوں منی مرگ/قمری اور کلشئی کے لوگوں کو ہی کیوں قرنطینہ کیا جا رہا ہے اور باقی علاقوں کے لوگوں کو کیوں گھروں کو بھیجا جا رہا ہے؟ کیا کورونا وائرس صرف منی مرگ کے لوگوں میں پھیل رہا ہے ۔؟ استور انتظامیہ کی کئی نااہلیاں ہیں پہلے پہلے جب قرنطینہ مراکز قائم کئے گئے تو دو اراکین اسمبلی سمیت دیگر بااثر شخصیات نے انتظامیہ پر دباو ڈالا اور اپنے بندے مراکز سے نکال کر سرکاری گاڑیوں میں گھروں تک پہنچا آئے یہ باتیں سوشل میڈیا کی بھی زینت بنی لیکن انتظامیہ خاموش رہی اسے روکنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔
صوبائی حکومت نے استور کو لاوارث چھوڑا اور تمام تر توانائیاں دیگر اضلاع پر صرف کی ، جس کی وجہ سے یہ اضلاع کورونا فری قرار پائے ہیں لیکن استور کو نظر انداز کرنے کے نتائج بھیانک شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ حالات حکومت کے بس سے باہر ہو جائیں اس سے قبل حکومت کو استور کی صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ ایک اور عبدالخالق حکومتی نااہلی کی بھینٹ چڑھ کر بے موت مارا جائے گا ۔
ادھر ایک طرف وزیراعلیٰ گلگت_بلتستان حافظ حفیظ الرحمن دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت قرنطین مراکز میں لوگوں کو بہترین کھانا حتیٰ کہ ٹراوٹ مچھلیاں بھی مریضوں کو مہیا کررہی ہے۔  دوسری طرف ، ضلع استور کے قرنطینہ مراکز میں سہولیات کے فقدان کے بارے میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے شکایات تصاویر اور ویڈیوز کی صورت سامنے آ رہی ہیں۔
بقول شاعر۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔۔۔۔۔ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں