تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی
منگل، 30 ستمبر، 2025
تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی
یلو اسٹون کا سب سے خوفناک معمہ حل — 20 سال بعد تین کوہ پیما بہن بھائیوں کی لاشیں برآمد
یلو اسٹون کا سب سے خوفناک معمہ حل — 20 سال بعد تین کوہ پیما بہن بھائیوں کی لاشیں برآمد
یلو اسٹون نیشنل پارک میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والا ایک پُراسرار معمہ بالآخر حل ہو گیا۔ سن 2003 کی گرمیاں تھیں جب کوہ پیمائی کے ماہر تین بہن بھائی اچانک لاپتہ ہو گئے۔ تلاش کے تمام جتن کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور ان کے اہلِ خانہ برسوں تک اذیت ناک بے یقینی میں مبتلا رہے۔اب، 20 سال بعد، ایک پارک رینجر نے ایک برفانی غار میں ان کی باقیات دریافت کی ہیں۔ یہ غار دراصل وقت کا قیدخانہ ثابت ہوا، جہاں ان کی لاشیں برف میں جمی ہوئی گویا وقت کے کسی ایک لمحے میں رک گئی ہوں۔ ان کے آخری لمحات کی یہ ہولناک جھلک قدرت کی بے رحم طاقت کی یاد دہانی ہے۔اس انکشاف نے جہاں ان کے اہلِ خانہ کو برسوں کی بے یقینی کے بعد سکون دیا، وہیں یہ واقعہ یلو اسٹون کے خطرناک پہاڑی راستوں اور فطرت کے بے قابو پہلوؤں کی ایک چونکا دینے والی شہادت بھی ہے۔ان بہن بھائیوں کی آخری مہم اور وہ عوامل جنہوں نے ان کی موت کو ان برفانی غاروں میں قید کر دیا — کی تفصیلات مکمل رپورٹ میں پیش کی گئی ہیں۔
پیر، 29 ستمبر، 2025
بجلی کا موجد بلکہ تمام الیکٹریک اور الیکٹرانک کا ایجاد کرنے والے کے ساتھ فراڈ اور مبینہ موت کی تحقیقات نہیں ہوئے۔ سرمایہ داروں کا اس عظیم انسان کے ساتھ کی گئی دردناک داستان پیش خدمت ہے
نیو یارک ہوٹل کی ملازمہ، ایلس موناگھن نے کمرہ نمبر 3327 میں 86 سالہ مرد کی لاش پائی! یہ مرد نیکولا ٹیسلا تھا، جسے "سب کچھ ایجاد کرنے والا" بھی کہا جاتا ہے۔
آئیے، آپ کو سب سے ذہین دماغ کی کہانی سناتے ہیں جو تاریخ نے دیکھا:
، سن (1856) میں ٹیسلا کروشیا میں پیدا ہوا، جہاں اس کی والدہ کا خاندان سائنسدانوں اور موجدوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی والدہ اپنی ذہانت اور مضبوط حافظے کے لیے مشہور تھی، جس نے اپنے بیٹے ٹیسلا کو یہ سب کچھ سکھایا۔ اپنی زبردست یادداشت کی بدولت، ٹیسلا نے نوجوانی میں 8 زبانیں بولنا سیکھ لیں: انگریزی، فرانسیسی، ہنگری، جرمن، چیک، اطالوی، لاطینی اور سربیائی-کروشین۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ ٹیسلا نے آسٹریا کی گریٹس یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں پہلے سال میں اس نے ایک عام طالب علم سے دوگنا کارکردگی حاصل کی۔ اس کی یونیورسٹی کے پروفیسرز نے اس کے والد کو مطلع کیا کہ اگر اس کا بیٹا اسی رفتار سے جاری رہا تو وہ تھکن کے باعث مر جائے گا۔
ٹیسلا نے ایڈیسن کمپنی میں فرانس میں ایک الیکٹریشن کے طور پر کام کیا۔ اس کی صلاحیت کی بدولت اسے امریکہ میں کمپنی کی شاخ میں منتقل کیا گیا۔ ایڈیسن نے اسے DC جنریٹرز کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کا کام دیا۔ ٹیسلا نے جواب دیا کہ وہ بجلی کو زیادہ مؤثر طریقے سے اور کم خرچ پر منتقل کر سکتا ہے۔ ایڈیسن نے اس پر یقین نہیں کیا اور اسے چیلنج کیا کہ اگر وہ ایسا کر سکے گا تو اسے 50 ہزار ڈالر دے گا، حالانکہ ٹیسلا کی ہفتہ وار تنخواہ صرف 18 ڈالر تھی۔ چند ماہ بعد، ٹیسلا نے واقعی اپنا ڈیزائن مکمل کیا لیکن ایڈیسن نے اسے ایک سینٹ بھی نہیں دیا اور کہنے لگا کہ وہ امریکی مزاح کو نہیں سمجھتا۔ اس پر ٹیسلا نے فوری طور پر استعفیٰ دے دیا اور جنگ کا آغاز ہوا۔
ٹیسلا نے 2 سرمایہ کاروں سے فنڈ حاصل کیا اور اپنی کمپنی قائم کی تاکہ وہ ایڈیسن کے ساتھ "کرنٹ وار" لڑ سکے۔ ایڈیسن DC کا استعمال کر رہا تھا جو طویل فاصلے پر منتقل کرنے کے لیے مہنگا تھا، جبکہ ٹیسلا AC کا استعمال کر رہا تھا جو زیادہ مؤثر اور کم خرچ تھا۔ ایڈیسن کے پاس ٹیسلا کے AC کو عوام میں خطرناک اور مہلک ثابت کرنے کے علاوہ کوئی حل نہیں تھا، لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی اور AC دنیا بھر میں سب سے زیادہ تسلیم شدہ کرنٹ بن گیا۔ آج آپ کے گھر میں جو کرنٹ آتا ہے، وہ ٹیسلا کا AC ہے۔
ٹیسلا کے اپنے کمپنی میں پہلا پیٹنٹ الیکٹریکل ڈائنامو انجن کے لیے درج کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ پیٹنٹ کمپنی کے نام پر درج کر دیا گیا اور سرمایہ کاروں نے اسے کمپنی سے نکال دیا، جس سے اس نے پیٹنٹس پر کنٹرول کھو دیا۔
اس دوران، ٹیسلا نے ٹیسلا کوائل ایجاد کیا، جو وائرلیس ٹیکنالوجی کی بنیاد تھی جو آج بھی ریڈیو میں استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ ٹیسلا پیٹنٹ رجسٹر کرنے اور صرف اپنے خیالات کو اپنے دماغ میں رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا، اٹلی کے انجینئر مارکونی نے ریڈیو کا پیٹنٹ اپنے نام پر رجسٹر کیا اور اس ایجاد پر نوبل انعام جیتا۔ لیکن، حقیقت میں ریڈیو کی بنیاد ٹیسلا کے 18 پیٹنٹس پر تھی، جن کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا۔
1895 میں، ٹیسلا نے ایک ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ ڈیزائن کیا جو ایک سال بعد نیو یارک کو بجلی فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ اس نے پہلی وائرلیس ریموٹ کنٹرول کشتی بھی ایجاد کی جو اس وقت ایک سائنسی ترقی تھی۔ ٹیسلا نے اس وقت ایک عجیب وائرلیس آلہ پر پیغامات وصول کیے جنہیں دوسرے سیاروں پر بسنے والے مخلوق کے پیغامات سمجھا گیا۔ لیکن ایک صدی سے زیادہ بعد، ہم نے سیکھا کہ وہ پیغامات بلیک ہولز سے گزرنے والی گریویٹیشنل لہریں تھیں۔
ٹیسلا کی سب سے بڑی دلچسپی اس وقت یہ تھی کہ وہ بجلی کو ہوا کے ذریعے دنیا بھر میں مفت منتقل کر سکے۔ اس نے نیو یارک میں وارڈن کلف ٹاور کی تعمیر کے لیے کچھ سرمایہ کاروں سے فنڈ حاصل کیا، تاکہ اپنے سب سے بڑے پروجیکٹ یعنی وائرلیس انرجی ٹرانسفر پر عمل درآمد کر سکے، لیکن ٹاور کی تعمیر مکمل ہونے سے پہلے، سرمایہ کاروں نے دیکھا کہ یہ پروجیکٹ غیر مؤثر ہے اور فنڈنگ ختم کر دی۔ 1917 میں اسے منہدم کر دیا گیا اور ٹیسلا نے دیوالیہ پن کا اعلان کیا۔
آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ جب آئن اسٹائن سے پوچھا گیا: دنیا کے سب سے ہوش مند آدمی ہونے کا کیا احساس ہے؟ تو آئن اسٹائن نے کہا، نیکولا ٹیسلا سے پوچھو۔
ٹیسلا کو دنیا کی طرف سے اس کی موت کے بعد کئی سالوں تک سراہا نہیں گیا، اور یہ ایک بہت ہی افسوسناک بات ہے جس کا ہر ایک ہم سب پر قرض ہے۔ ٹیسلا ایک عظیم آدمی تھا جس نے خود کو سائنس کے لیے وقف کر دیا۔ اس نے شادی نہیں کی اور نہ ہی کوئی اولاد چھوڑی، اور 3327 نمبر کے کمرے میں اکیلا مر گیا، جس کا نمبر اس کی زندگی بھر کی پسندیدہ تعداد 3 کو ظاہر کرتا ہے۔
آخر کار، ٹیسلا ایک عظیم آدمی تھا جس کی ذہانت کی کوئی حد نہیں ہے، اگر وہ نہ ہوتا تو ہم دور دراز جگہوں پر بجلی نہ پہنچا سکتے، نہ ہی ریڈار، موبائل، ریڈیو یا انٹرنیٹ کا استعمال کر پاتے۔
اس عظیم الیکٹریشین کو سلام!
اتوار، 28 ستمبر، 2025
بولور: عرض شمال کی بھولی بسری ریاست موجود گلگت بلتستان /بلاورستان کی تاریخی پس منظر ۔
بولور: عرض شمال کی بھولی
بکھری ریاست موجود گلگت بلتستان /بلاورستان کی تاریخی پس منظر
گلگت بلتستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک پراسرار سا نام بار بار سامنے آتا ہے — بولور۔ یہ قدیم اصطلاح کبھی چینی، اسلامی، تبتی اور کشمیری حوالوں میں ملتی ہے اور کبھی مغل عہد کی کتابوں میں۔ یہ صرف ایک خطے کا نام نہیں تھا، بلکہ وسائل سے بھرپور ایک ایسی سرزمین کی پہچان تھی جو مختلف تہذیبوں کے بیچ ایک پل کی حیثیت رکھتی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بولور کا ماخذ سنسکرت زبان ہے، جس کے معنی ہیں صاف و شفاف کرسٹل۔ جیسے اس خطے کے برف پوش پہاڑ اور چمکتے ہوئے گلیشیئر۔
چینی ذرائع میں بولور
بولور کا پہلا ذکر ہمیں چینی تواریخ میں پو-لو-لو کے نام سے ملتا ہے۔ مشہور چینی سیاح ہیوئن سانگ (Xuanzang) نے ساتویں صدی میں اس علاقے کا سفر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ ملک برفانی پہاڑوں کے بیچ آباد ہے، جہاں گندم، دالیں، سونا اور چاندی پیدا ہوتی ہیں۔
البتہ، انہوں نے یہاں کے لوگوں کو کچھ سخت الفاظ میں بیان کیا۔ ان کے بقول لوگ "سخت مزاج اور بدتمیز" ہیں اور سادہ اون کے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ رائے اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ باہر سے آنے والوں کو یہ خطہ کتنا انوکھا اور مختلف دکھائی دیتا ہوگا۔
بڑا اور چھوٹا بولور
چینی اور کوریائی ماخذ کے مطابق بولور دو حصوں میں بٹا ہوا تھا:
-
بڑا بولور — بلتستان (اسکردو ،لداخ) کے لیے۔
-
چھوٹا بولور — گلگت وادی کے لیے۔
یہ تقسیم اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم دور میں بھی یہ خطہ وسیع اور متنوع تھا۔
تبتی اور کشمیری روایات
بولور کا ذکر تبتی اور کشمیری زبانوں میں بھی ملتا ہے۔ یہاں اسے بڑا اور چھوٹا بھٹہ دیس کہا جاتا تھا، جبکہ کشمیری میں لکھ بُتن اور بُد بُتن کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ یہی اصطلاحات چینی تواریخ میں چھوٹا اور بڑا پولیو کے طور پر بھی درج ہیں۔
اسلامی ماخذ میں بولور
نویں صدی تک بولور کا ذکر اسلامی کتب میں بھی آنے لگا۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور کے ایک کتبے میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ بعد میں مشہور کتاب حدود العالم میں بولور کو ایک وسیع ملک بتایا گیا، جس کے بادشاہ کو "فرزندِ آفتاب" کہا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریاست میں نمک صرف کشمیر سے لایا جاتا تھا۔
مشہور مسلمان محقق البیرونی نے بھی بولور کا ذکر کیا ہے، اور اسے دریائے سندھ کے قریب واقع ترک قبائل کا علاقہ بتایا ہے، جن کا بادشاہ بھٹہ شاہ کہلاتا تھا۔
مغل دور میں بولور
مغل سپہ سالار مرزا محمد حیدر دوغلت نے 1528ء میں بولور پر حملہ کیا اور اسے "کافر ملک" کہا، جہاں لوگ کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے۔ ان کے مطابق بولور ایک ایسا خطہ تھا جہاں گاؤں گاؤں آپس میں لڑائی رہتی تھی اور امن نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔
پٹولا شاہی سلطنت
چینی مؤرخین بولور کو گلگت کی پٹولا شاہی سلطنت سے بھی جوڑتے ہیں، جسے وہ پو-لو-لو لکھتے ہیں۔ گلگت اور دیامر میں دریافت شدہ کتبوں سے بھی اس سلطنت کے شواہد ملتے ہیں، جہاں "سری پالولا" اور دیگر راہبوں کے نام کندہ ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بولور صرف ایک خطہ نہیں، بلکہ ایک منظم ریاست تھی۔
اختتامی نوٹ
بولور کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان اور بلتستان کبھی دنیا کے نقشے پر ایک اہم مقام رکھتے تھے۔ یہ سرزمین کبھی چینی زائرین کے سفرناموں میں آئی، کبھی اسلامی جغرافیہ نگاروں نے اس کا ذکر کیا، اور کبھی مغل جرنیلوں نے اس پر حملے کیے۔
آج بولور کا نام شاید بھلا دیا گیا ہو، مگر یہ دراصل اس خطے کی اُس تاریخی شناخت کا حصہ ہے جس نے صدیوں تک تہذیبوں کو جوڑا۔
✨ بولور — برفانی چوٹیوں، گلیشیئرز اور تاریخ کی گہرائیوں میں چھپا ایک بھولا بسرا خواب۔
"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"
استور ۔منی مرگ استور میں نایاب بھورا ریچھ ہلاک
منی مرگ استور میں نایاب بھورا ریچھ ہلاک
غیر قانونی شکار، ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ اور اداروں کی ناکامی پر سوالات
ضلع استور کے سرحدی علاقے منی مرگ میں نایاب بھورے ریچھ کا غیر قانونی شکار نہ صرف مقامی آبادی بلکہ ماحول دوست حلقوں کے لیے بھی شدید تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق نامعلوم افراد نے رات کی تاریکی میں فائرنگ کر کے ریچھ کو ہلاک کیا اور اس کی زبان اور رگ نکال کر ساتھ لے گئے۔ یہ عمل محض ایک جنگلی جانور کے قتل تک محدود نہیں بلکہ ایک بڑے ماحولیاتی المیے کا پیش خیمہ ہے۔
جنگلی حیات کی بقا کو سنگین خطرات
بھورا ریچھ پاکستان کے شمالی پہاڑی خطے کی نایاب اور خطرے سے دوچار نسل ہے۔ ان کا غیر قانونی شکار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ اگر اس رفتار سے شکار جاری رہا تو آئندہ نسلیں ان قیمتی جانداروں کو صرف کتابوں اور تصاویر میں دیکھ سکیں گی۔
محکمہ جنگلات اور اداروں کی غفلت
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کے اہلکار زیادہ تر جڑی بوٹیوں اور دیگر غیر متعلقہ معاملات میں مصروف رہتے ہیں جبکہ جنگلی جانوروں کے تحفظ جیسے اصل فرائض کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اداروں کی یہ غفلت غیر قانونی شکاریوں کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔
عوامی ردعمل اور مطالبات
واقعے کے بعد مقامی آبادی میں غم و غصے کی فضا ہے۔ لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ:
اس واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں۔
غیر قانونی شکار میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔
علاقے میں مؤثر گشت اور نگرانی کا نظام قائم کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔
شہباز شریف اور عاصم منیر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کے کوٹ پر لگی ’لڑاکا طیارے کی پن‘ سے جڑے سوال اور جواب اور وائٹ ہاس کی وضاحت
ماحولیاتی تناظر
ماہرین ماحولیات کے مطابق ریچھ جیسے بڑے شکاری جانور قدرتی توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا خاتمہ پورے ماحولیاتی نظام کو متاثر کر سکتا ہے، جس کے اثرات بالآخر مقامی انسانوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ اس لیے نایاب جانوروں کی حفاظت محض ایک حیاتیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سماجی اور ماحولیاتی ضرورت ہے۔
❖ یہ واقعہ ہمارے نظام کی کمزوری اور جنگلی حیات کے تحفظ کے دعووں کی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو خطے کے پہاڑی ماحولیاتی نظام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔
مزید یہ کہ ،
"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"
جمعہ، 26 ستمبر، 2025
شہباز شریف اور عاصم منیر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کے کوٹ پر لگی ’لڑاکا طیارے کی پن‘ سے جڑے سوال اور جواب اور وائٹ ہاس کی وضاحت
وائٹ ہاؤس میں اہم ملاقات: شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات، سوشل میڈیا پر پن کا مطلب زیرِ بحث
دنیا بھر کے عالمی رہنما ان دنوں امریکہ میں موجود ہیں جہاں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس جاری ہے۔ اس اہم موقع پر عالمی سفارت کاری بھی اپنے عروج پر ہے، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
انہی ملاقاتوں کے دوران پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بھی وائٹ ہاؤس آمد ہوئی، جہاں انہوں نے امریکی صدر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے موضوعات پر سرکاری طور پر زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئیں، لیکن سوشل میڈیا پر اس ملاقات کی تصاویر اور مناظر خاصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر پن کی گونج: ایک علامت، کئی مفہوم
ان تصاویر میں امریکی صدر کے کوٹ پر لگی ایک خصوصی پن نے پاکستانی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ حاصل کی۔ اس پن میں امریکی جھنڈے کے ساتھ ساتھ ایک جنگی طیارہ بھی دکھایا گیا تھا، جسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستانی سوشل میڈیا پر کئی صارفین اس پن کو بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں ایک "علامتی پیغام" کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاید ٹرمپ نے یہ پن پہن کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو کوئی سفارتی اشارہ دینے کی کوشش کی ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان، بلکہ بھارت سے بھی ایسے صارفین سامنے آئے ہیں جو اس پن کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایک بھارتی صارف نے شہباز شریف، فیلڈ مارشل عاصم منیر اور امریکی صدر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا:
"ٹرمپ نے جنگی جہاز کی پن کیوں لگائی؟"
"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"
پس منظر: انڈیا-پاکستان کشیدگی اور امریکی صدر کا مبہم بیان
یہ بات یاد رہے کہ مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ مختصر مگر شدید جھڑپیں ہوئیں، جن کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کے دعوے کیے۔ جولائی میں ایک تقریب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس جھڑپ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
"ہم نے انڈیا اور پاکستان کی جنگ رکوائی، اس دوران پانچ جنگی طیارے مار گرائے گئے۔"
تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ طیارے کس ملک کے تھے، اور کس نے گرائے۔ اس مبہم بیان نے بھی اس وقت خاصی بحث کو جنم دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی وضاحت: پن کا پس منظر کیا ہے؟
ملاقات کی تصاویر وائرل ہونے کے بعد جب سوشل میڈیا پر قیاس آرائیاں بڑھنے لگیں تو وائٹ ہاؤس کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ:
"صدر ٹرمپ نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کے دوران اپنے کوٹ پر سونے سے بنی ہوئی ایف-22 ریپٹر جنگی جہاز کی پن لگائی تھی۔"
یعنی یہ پن نہ تو پاکستان یا بھارت کے لیے کوئی اشارہ تھی اور نہ ہی کسی مخصوص واقعے سے متعلق تھی، بلکہ ترک صدر سے ملاقات کے موقع پر پہنی گئی ایک مخصوص علامت تھی۔
سیاق و سباق اہم ہوتا ہے
یہ بھی واضح رہے کہ امریکی صدر نے ترک صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ہی پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف سے بھی جمعرات کے روز ملاقات کی، لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ وہی پن ان دونوں مواقع پر پہن رکھی گئی ہو۔
نتیجہ: علامتیں سیاست میں اہم مگر سیاق ضروری
اس واقعے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ عالمی سیاست میں علامتی چیزیں، جیسے کہ لباس، پنز، یا جسمانی زبان، کیسے گہرے مفاہیم اور قیاس آرائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ لیکن اکثر اوقات ان کا اصل مطلب وہ نہیں ہوتا جو ہم بظاہر سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فوری ردعمل کے بجائے حقائق کا انتظار اور سیاق و سباق کو سمجھنا ایک ذمہ دارانہ رویہ ہے۔
جمعرات، 25 ستمبر، 2025
"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"
تصویر میں ایک سرکاری استقبالیہ تقریب دکھائی گئی ہے، جہاں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف (درمیان میں) ایران کے دورے پر ہیں اور ایرانی صدر یا اعلیٰ حکام کے ساتھ پریڈ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ پس منظر میں ایرانی فوجی دستہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ صف بستہ کھڑا ہے، جو اس موقع کی سنجیدگی اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے
یران، سعودی عرب اور پاکستان: خطے میں بدلتے اتحادوں کی نئی تصویر
مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سیاست ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں پرانے مخالفین اب سفارتی گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایران کے صدر مسعود پژشکیان کی جانب سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جو کہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ تہران اور ریاض کے ماضی کے تلخ تعلقات کے تناظر میں ایک اہم علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں، لیکن چین کی ثالثی میں رواں سال دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ علاقائی ایشوز پر بھی تعاون میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔
اسی تسلسل میں، قطر میں حالیہ اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر کی ملاقات نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت پر ہوئی جب خطے میں اسرائیل اور فلسطین تنازع نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا 'باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ' بھی اسی خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی نقشے کی عکاسی کرتا ہے۔ معاہدے کے تحت طے پایا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت کی جاتی ہے، تو اسے دونوں ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔
ایران کی جانب سے اس معاہدے کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب خطے میں استحکام اور تعاون کو ترجیح دے رہا ہے، بجائے اس کے کہ صرف ماضی کی رقابتوں پر سیاست کی جائے۔
یہ نئی پیشرفتیں اس بات کی غماز ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک اب سرد جنگی ذہنیت سے باہر آ کر سٹریٹجک مفادات، سلامتی اور علاقائی استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک اگر واقعی مشترکہ اہداف پر کام کریں تو نہ صرف دہشتگردی اور بیرونی مداخلت کا سدباب ممکن ہے بلکہ خطے میں معاشی ترقی کے در بھی کھل سکتے ہیں۔
بدھ، 24 ستمبر، 2025
بریکنگ نیوز: اسرائیل کو سنگین نتائج کی دھمکی سعودی عرب، ترکی اور ایران کا سخت ردعمل — نیتن یاہو کی مغربی کنارے سے متعلق کسی بھی کارروائی پر عرب لیگ کی "تاریخی جوابی کارروائی" کی وارننگ
عرب لیگ کی جانب سے تاریخی کارروائی کا عندیہ، نیتن یاہو کی پالیسی پر شدید ردعمل
کیا مشرقِ وسطیٰ ایک نئے طوفان کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عرب ممالک کی اسرائیل کو وارننگ
نیتن یاہو کے مغربی کنارے پر ممکنہ الحاق کی کوشش پر سعودی عرب، ترکی اور ایران کا سخت موقف — عرب لیگ اسرائیل کے خلاف تاریخی اقدام پر غور کر رہی ہے۔
🧭 پسِ منظر: مغربی کنارے کا تنازع کیا ہے؟
مغربی کنارہ (West Bank) فلسطینی علاقوں کا وہ خطہ ہے جو 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ یہ علاقہ بین الاقوامی طور پر فلسطینی ریاست کا حصہ تصور کیا جاتا ہے، مگر اسرائیل نے یہاں پر مختلف اوقات میں یہودی بستیاں قائم کی ہیں، جنہیں عالمی برادری کی اکثریت غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ برسوں میں کئی بار عندیہ دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں ضم (الحاق) کرنا چاہتے ہیں، جس سے نہ صرف فلسطینی قیادت بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
یہ اقدام دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، جو دہائیوں سے اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
🏛️ عرب لیگ کا ممکنہ ردعمل: ماضی میں ایسے مواقع پر کیا ہوا؟
عرب لیگ نے ماضی میں اسرائیلی اقدامات پر بیانات تو ضرور دیے ہیں، مگر عملی سطح پر ردعمل اکثر محدود رہا ہے۔ 1967، 1982 اور 2000 میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف عرب ممالک نے مختلف سطحوں پر احتجاج اور سفارتی دباؤ تو ڈالا، مگر کوئی مشترکہ "تاریخی کارروائی" کم ہی دیکھنے کو ملی۔
البتہ حالیہ برسوں میں فلسطین کاز کے لیے خلیجی ممالک میں عوامی سطح پر ہمدردی میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ بعض عرب ریاستوں (جیسے کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش) نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں (ابراہام معاہدے)۔
تاہم، اگر سعودی عرب، ترکی اور ایران بیک وقت کھل کر اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں، تو یہ ایک غیر معمولی اور ممکنہ طور پر اثر انگیز سفارتی محاذ بن سکتا ہے۔
ہنزہ ۔ مساٸلستان میں سیاسی لوگ اور الیکشن میں ووٹ پر قابل غور تحریر ۔
🔍 تجزیہ: اس وارننگ کے سیاسی اور سفارتی اثرات
سعودی عرب، ترکی اور ایران تینوں علاقائی طاقتیں ہیں، مگر ان کے آپسی تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔ اگر یہ ممالک مغربی کنارے کے الحاق کے خلاف متحد ہو کر قدم اٹھاتے ہیں، تو اس کا اثر نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ جیسے اس کے اتحادیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ممکنہ اثرات:
-
سفارتی دباؤ: اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے اسرائیل پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔
-
علاقائی کشیدگی: فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کو تقویت مل سکتی ہے، اور خطے میں ایک نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔
-
امریکہ کے لیے چیلنج: اگر عرب لیگ واضح اور مشترکہ موقف اپناتی ہے، تو امریکہ کو اپنی پالیسی میں توازن پیدا کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھتا ہے۔
-
سعودی عرب کا کردار: اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل سے براہ راست تعلقات قائم نہیں کیے، مگر یہ پہلا موقع ہو سکتا ہے جب وہ واضح طور پر اسرائیل کے خلاف کسی "تاریخی اقدام" کی حمایت کرے۔