منگل، 30 ستمبر، 2025

تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی


 تاریخ اس غداری کو یاد رکھے گی




ٹرمپ ،آصم منیر اور شہباز شریف کی اسرائیل کے حوالے سے تفصیل گفتگو کے بعد فوٹو




ٹرمپ کی قیادت میں؟ ہرگز نہیں! — یہ منصوبہ سراسر ناانصافی ہے
نیویارک میں ہونے والی ایک حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقات نے جلد ہی بین الاقوامی اور مقامی سطح پر شدید ردِعمل کو جنم دے دیا۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیرِ اہتمام یہ اجلاس اور اس کے بعد سامنے آنے والے بیانات نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں ہنگامہ کھڑا کیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی عوامی غم و غصے کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا — خصوصاً جب پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی شرکت اور ممکنہ طور پر کسی متنازعہ مؤقف کی حمایت کے اشارے سامنے آئے۔
---
## ملاقات کا پسِ منظر اور تنازعہ
ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ، جسے بعض حلقے "غزہ پلان" کہتے ہیں، فلسطینی عوام کے حقوق کے بارے میں سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نوآبادیاتی طرزِ فکر اور ناجائز قبضے کو بظاہر جائز بنانے کی کوشش ہے — ایک ایسا طریقۂ کار جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف کے تقاضوں کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔
---
## عوامی ردِعمل — ایک بے مثال غصّہ
چند گھنٹوں کے اندر ہی ایکس (سابق ٹویٹر) پر عوامی غصے کا طوفان امڈ آیا۔ مشتعل صارفین نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ وہ:
* "واشنگٹن کو خوش کرنے" کی کوشش میں ہیں،
* "پاکستان کے فلسطین پر دیرینہ مؤقف کو دفن" کر رہے ہیں،
* اور "صرف ایک ٹوئٹ میں اسرائیل کو جائز حیثیت دینے" کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک صارف نے سخت سوال اٹھایا:
> "ہم پاکستانی یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ فلسطینی عوام کیا چاہتے ہیں۔ جب 70 ہزار شہری مارے جا چکے ہیں تو غزہ کو غیر مسلح کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ اسرائیل ایک سیکیورٹی حصار برقرار رکھے گا؟"
یہی وہ بنیادی تشویش ہے جو عوامی ناراضگی کی جڑ بن گئی — کہ کون فیصلہ کرے گا، اور آیا اس فیصلے میں مظلوم فلسطینی عوام کی رائے اور سلامتی کی ضمانت شامل ہے یا نہیں۔
---
## سوشل میڈیا کا کردار اور ریاستی پالیسی
سوشل پلیٹ فارمز نے اس واقعے کو ایک عوامی فورم میں تبدیل کر دیا جہاں شہری، دانشور، صحافی اور سیاستدان ایک ساتھ بحث و مباحثہ کر رہے ہیں۔ حکومتوں کے لیے یہ واضح پیغام ہے: خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی بیانات عوامی اعتماد کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو ہی پائیدار رہ سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کی بات سنیے — ورنہ ردِعمل طویل مدتی سیاسی اور سماجی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
---
## سوالات جو ابھی جواب طلب ہیں
* کیا پاکستان اپنے تاریخی مؤقف سے پیچھے ہٹے گا یا اس معاملے میں مستقل پالیسی جاری رکھے گا؟
* اگر کسی معاہدے کی جانب پیش قدمی ہوتی ہے تو فلسطینیوں کی نمائندگی اور ان کی سلامتی کو کیسے یقین دہانی کرائی جائے گی؟
* بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی مفادات کا توازن انسانیت اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ کیسے قائم رکھا جائے؟
نتیجہ
فلسطین کا مسئلہ محض سیاسی مذاکرات یا علاقائی مفادات کا معاملہ نہیں؛ یہ بنیادی انسانی حقوق، وطن کے تحفظ اور انصاف کا سوال ہے۔ اگر کسی منصوبے سے مظلوم فلسطینی عوام کی بقا، خودمختاری یا بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں تو اسے قبول کرنا ناممکن ہے — اور تاریخ ایسے فیصلوں کو "غداری" کے طور پر یاد رکھے گی۔ موجودہ غم و غصہ محض ردِعمل نہیں، بلکہ ایک آواز ہے جو انصاف، شفافیت اور انسانی وقار کے ساتھ فیصلوں کا تقاضا کرتی ہے۔
نیویارک میں ہونے والی ملاقات اور اس کے بعد ایکس پر اٹھنے والے غصے نے پاکستان کے ایک طویل المدتی مؤقف کو سوالیہ نشان بنا دیا — عوامی نعروں میں یہ پیغام واضح ہے: فلسطینی عوام کی رائے اور سلامتی کے بغیر کوئی معاہدہ قابلِ قبول نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں