عرب لیگ کی جانب سے تاریخی کارروائی کا عندیہ، نیتن یاہو کی پالیسی پر شدید ردعمل
کیا مشرقِ وسطیٰ ایک نئے طوفان کی طرف بڑھ رہا ہے؟ عرب ممالک کی اسرائیل کو وارننگ
نیتن یاہو کے مغربی کنارے پر ممکنہ الحاق کی کوشش پر سعودی عرب، ترکی اور ایران کا سخت موقف — عرب لیگ اسرائیل کے خلاف تاریخی اقدام پر غور کر رہی ہے۔
🧭 پسِ منظر: مغربی کنارے کا تنازع کیا ہے؟
مغربی کنارہ (West Bank) فلسطینی علاقوں کا وہ خطہ ہے جو 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ یہ علاقہ بین الاقوامی طور پر فلسطینی ریاست کا حصہ تصور کیا جاتا ہے، مگر اسرائیل نے یہاں پر مختلف اوقات میں یہودی بستیاں قائم کی ہیں، جنہیں عالمی برادری کی اکثریت غیر قانونی قرار دیتی ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ برسوں میں کئی بار عندیہ دیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو اسرائیل میں ضم (الحاق) کرنا چاہتے ہیں، جس سے نہ صرف فلسطینی قیادت بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
یہ اقدام دو ریاستی حل (Two-State Solution) کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے، جو دہائیوں سے اسرائیل-فلسطین تنازع کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
🏛️ عرب لیگ کا ممکنہ ردعمل: ماضی میں ایسے مواقع پر کیا ہوا؟
عرب لیگ نے ماضی میں اسرائیلی اقدامات پر بیانات تو ضرور دیے ہیں، مگر عملی سطح پر ردعمل اکثر محدود رہا ہے۔ 1967، 1982 اور 2000 میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف عرب ممالک نے مختلف سطحوں پر احتجاج اور سفارتی دباؤ تو ڈالا، مگر کوئی مشترکہ "تاریخی کارروائی" کم ہی دیکھنے کو ملی۔
البتہ حالیہ برسوں میں فلسطین کاز کے لیے خلیجی ممالک میں عوامی سطح پر ہمدردی میں کمی دیکھی گئی ہے، جبکہ بعض عرب ریاستوں (جیسے کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش) نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی قائم کر لیے ہیں (ابراہام معاہدے)۔
تاہم، اگر سعودی عرب، ترکی اور ایران بیک وقت کھل کر اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں، تو یہ ایک غیر معمولی اور ممکنہ طور پر اثر انگیز سفارتی محاذ بن سکتا ہے۔
ہنزہ ۔ مساٸلستان میں سیاسی لوگ اور الیکشن میں ووٹ پر قابل غور تحریر ۔
🔍 تجزیہ: اس وارننگ کے سیاسی اور سفارتی اثرات
سعودی عرب، ترکی اور ایران تینوں علاقائی طاقتیں ہیں، مگر ان کے آپسی تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔ اگر یہ ممالک مغربی کنارے کے الحاق کے خلاف متحد ہو کر قدم اٹھاتے ہیں، تو اس کا اثر نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ جیسے اس کے اتحادیوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔
ممکنہ اثرات:
-
سفارتی دباؤ: اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی ادارے اسرائیل پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔
-
علاقائی کشیدگی: فلسطین میں مزاحمتی تحریکوں کو تقویت مل سکتی ہے، اور خطے میں ایک نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔
-
امریکہ کے لیے چیلنج: اگر عرب لیگ واضح اور مشترکہ موقف اپناتی ہے، تو امریکہ کو اپنی پالیسی میں توازن پیدا کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھتا ہے۔
-
سعودی عرب کا کردار: اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل سے براہ راست تعلقات قائم نہیں کیے، مگر یہ پہلا موقع ہو سکتا ہے جب وہ واضح طور پر اسرائیل کے خلاف کسی "تاریخی اقدام" کی حمایت کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کمنٹ ضرور کریں