جمعرات، 25 ستمبر، 2025

"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"

 
تصویر میں ایک سرکاری استقبالیہ تقریب دکھائی گئی ہے، جہاں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف (درمیان میں) ایران کے دورے پر ہیں اور ایرانی صدر یا اعلیٰ حکام کے ساتھ پریڈ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ پس منظر میں ایرانی فوجی دستہ مکمل پروٹوکول کے ساتھ صف بستہ کھڑا ہے، جو اس موقع کی سنجیدگی اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے




یران، سعودی عرب اور پاکستان: خطے میں بدلتے اتحادوں کی نئی تصویر

مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سیاست ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے، جہاں پرانے مخالفین اب سفارتی گرمجوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایران کے صدر مسعود پژشکیان کی جانب سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا ہے، جو کہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ تہران اور ریاض کے ماضی کے تلخ تعلقات کے تناظر میں ایک اہم علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں، لیکن چین کی ثالثی میں رواں سال دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ علاقائی ایشوز پر بھی تعاون میں بہتری دیکھنے کو ملی ہے۔

اسی تسلسل میں، قطر میں حالیہ اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر کی ملاقات نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ یہ ملاقات ایسے وقت پر ہوئی جب خطے میں اسرائیل اور فلسطین تنازع نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والا 'باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ' بھی اسی خطے کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی نقشے کی عکاسی کرتا ہے۔ معاہدے کے تحت طے پایا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر بیرونی جارحیت کی جاتی ہے، تو اسے دونوں ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔

ایران کی جانب سے اس معاہدے کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب خطے میں استحکام اور تعاون کو ترجیح دے رہا ہے، بجائے اس کے کہ صرف ماضی کی رقابتوں پر سیاست کی جائے۔


یہ نئی پیشرفتیں اس بات کی غماز ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک اب سرد جنگی ذہنیت سے باہر آ کر سٹریٹجک مفادات، سلامتی اور علاقائی استحکام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک اگر واقعی مشترکہ اہداف پر کام کریں تو نہ صرف دہشتگردی اور بیرونی مداخلت کا سدباب ممکن ہے بلکہ خطے میں معاشی ترقی کے در بھی کھل سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں