اتوار، 28 ستمبر، 2025

بولور: عرض شمال کی بھولی بسری ریاست موجود گلگت بلتستان /بلاورستان کی تاریخی پس منظر ۔

 

 بولور: عرض شمال کی بھولی

بکھری ریاست موجود گلگت بلتستان /بلاورستان کی تاریخی پس منظر

گلگت بلتستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک پراسرار سا نام بار بار سامنے آتا ہے — بولور۔ یہ قدیم اصطلاح کبھی چینی، اسلامی، تبتی اور کشمیری حوالوں میں ملتی ہے اور کبھی مغل عہد کی کتابوں میں۔ یہ صرف ایک خطے کا نام نہیں تھا، بلکہ وسائل سے بھرپور ایک ایسی سرزمین کی پہچان تھی جو مختلف تہذیبوں کے بیچ ایک پل کی حیثیت رکھتی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بولور کا ماخذ سنسکرت زبان ہے، جس کے معنی ہیں صاف و شفاف کرسٹل۔ جیسے اس خطے کے برف پوش پہاڑ اور چمکتے ہوئے گلیشیئر۔


چینی ذرائع میں بولور

بولور کا پہلا ذکر ہمیں چینی تواریخ میں پو-لو-لو کے نام سے ملتا ہے۔ مشہور چینی سیاح ہیوئن سانگ (Xuanzang) نے ساتویں صدی میں اس علاقے کا سفر کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ ملک برفانی پہاڑوں کے بیچ آباد ہے، جہاں گندم، دالیں، سونا اور چاندی پیدا ہوتی ہیں۔

البتہ، انہوں نے یہاں کے لوگوں کو کچھ سخت الفاظ میں بیان کیا۔ ان کے بقول لوگ "سخت مزاج اور بدتمیز" ہیں اور سادہ اون کے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہ رائے اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ باہر سے آنے والوں کو یہ خطہ کتنا انوکھا اور مختلف دکھائی دیتا ہوگا۔


بڑا اور چھوٹا بولور

چینی اور کوریائی ماخذ کے مطابق بولور دو حصوں میں بٹا ہوا تھا:

  • بڑا بولور — بلتستان (اسکردو ،لداخ) کے لیے۔

  • چھوٹا بولور — گلگت وادی کے لیے۔

یہ تقسیم اس بات کا ثبوت ہے کہ قدیم دور میں بھی یہ خطہ وسیع اور متنوع تھا۔


تبتی اور کشمیری روایات

بولور کا ذکر تبتی اور کشمیری زبانوں میں بھی ملتا ہے۔ یہاں اسے بڑا اور چھوٹا بھٹہ دیس کہا جاتا تھا، جبکہ کشمیری میں لکھ بُتن اور بُد بُتن کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ یہی اصطلاحات چینی تواریخ میں چھوٹا اور بڑا پولیو کے طور پر بھی درج ہیں۔





اسلامی ماخذ میں بولور

نویں صدی تک بولور کا ذکر اسلامی کتب میں بھی آنے لگا۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کے دور کے ایک کتبے میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ بعد میں مشہور کتاب حدود العالم میں بولور کو ایک وسیع ملک بتایا گیا، جس کے بادشاہ کو "فرزندِ آفتاب" کہا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ریاست میں نمک صرف کشمیر سے لایا جاتا تھا۔

مشہور مسلمان محقق البیرونی نے بھی بولور کا ذکر کیا ہے، اور اسے دریائے سندھ کے قریب واقع ترک قبائل کا علاقہ بتایا ہے، جن کا بادشاہ بھٹہ شاہ کہلاتا تھا۔


مغل دور میں بولور

مغل سپہ سالار مرزا محمد حیدر دوغلت نے 1528ء میں بولور پر حملہ کیا اور اسے "کافر ملک" کہا، جہاں لوگ کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے۔ ان کے مطابق بولور ایک ایسا خطہ تھا جہاں گاؤں گاؤں آپس میں لڑائی رہتی تھی اور امن نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔


پٹولا شاہی سلطنت

چینی مؤرخین بولور کو گلگت کی پٹولا شاہی سلطنت سے بھی جوڑتے ہیں، جسے وہ پو-لو-لو لکھتے ہیں۔ گلگت اور دیامر میں دریافت شدہ کتبوں سے بھی اس سلطنت کے شواہد ملتے ہیں، جہاں "سری پالولا" اور دیگر راہبوں کے نام کندہ ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بولور صرف ایک خطہ نہیں، بلکہ ایک منظم ریاست تھی۔


اختتامی نوٹ

بولور کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گلگت بلتستان اور بلتستان کبھی دنیا کے نقشے پر ایک اہم مقام رکھتے تھے۔ یہ سرزمین کبھی چینی زائرین کے سفرناموں میں آئی، کبھی اسلامی جغرافیہ نگاروں نے اس کا ذکر کیا، اور کبھی مغل جرنیلوں نے اس پر حملے کیے۔

آج بولور کا نام شاید بھلا دیا گیا ہو، مگر یہ دراصل اس خطے کی اُس تاریخی شناخت کا حصہ ہے جس نے صدیوں تک تہذیبوں کو جوڑا۔

بولور — برفانی چوٹیوں، گلیشیئرز اور تاریخ کی گہرائیوں میں چھپا ایک بھولا بسرا خواب۔



"ایران کا سعودی-پاکستان دفاعی اتحاد کا خیرمقدم: خطے میں بدلتی ہوئی سفارتی فضا کی علامت"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں