منگل، 28 جولائی، 2020

چلاس . دیامر واقعے پر سی ٹی ڈی اور نگران وزیر اعلی کے بیان میں تضاد

چلاس حسین احمد سے *سی۔ٹی۔ڈی پولیس اور وزیراعلٰی کے بیانات میں پایا جانے والا کھلا تضاد*

نگران وزیراعلٰی میرافضل خان:

دہشت گرد بھاری اسلحے کا ناجائز کاروبار اور اسے دہشت گردی کے لئے استعمال کرتے تھے۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس:

کونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ سے اطلاع ملی تھی کہ جگلوٹ تھانے کو مطلوب اشتہاری مجرم مسمی علاج اعظم ولد جلو گھر میں موجود ہے۔ CTD چھاپہ مار ٹیم نےانسپکٹر نبی ولی کی سرکردگی میں مذکوره گھر میں آپریشن کیا۔

دونوں کے بیانات جہاں تضاد پایا جاتا ہے وہیں ان بیانات سے کچھ وضاحتیں طلب ہیں اور سوالات بھی پیدا ہورہے ہیں۔

وزیراعلٰی صاحب نے جہاں دہشت گردی کا لیبل لگایا وہیں یہ بتانا بھول گئے دہشت گرد کون تھا اور کب انہیں دہشت گرد قرار دیا جاچکا تھا۔ وزیراعلٰی نے جب یہ کہا کہ یہ لوگ بھاری اسلحے کا ناجائز کاروبار کرتے ہیں وہیں یہ بتانا بھول گئے کہ آپریشن کے بعد کتنی تعداد میں اسلحلہ برآمد ہوا۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس کے بیان پر نظر ڈالیں تو اس پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس کے مطابق علاج اعظم کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا گیا لیکن یہاں یہ بتانا بھول گئے کہ آپریشن کے بعد علاج اعظم کہاں ہے؟ اتنی پلاننگ کے تحت کی جانے والی کاروائی کے بعد علاج اعظم گرفتار کیوں نہ ہوسکے۔ سی۔ٹی۔ڈی پولیس یہ بتانا بھول گئی کہ گھر میں موجود مرنے والے دو افراد انکو مطلوب نہیں تھے تو کیوں مارا؟ سی۔ٹی۔ڈی پولیس اپنے بیان میں یہ وضاحت کرنا بھول گئی کہ سی۔ٹی۔ڈی کے مرنے والے اہلکار پر فائرنگ کس نے کی۔ پولیس کی وضاحتی بیان میں یہ بات بھی سامنے نہیں آئی کہ آپریشن کے دوران کراس فائرنگ کا تبادلہ ہوا یا نہیں۔ سارے حقائق سے پردہ ڈالنے سے گلگت بلتستان پولیس کی ناقص پالیسی کھل کر سامنے آئی۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس اور وزیراعلٰی کے بیانات میں پایا جانے والا کھلا تضاد

نگران وزیراعلٰی میرافضل خان:

دہشت گرد بھاری اسلحے کا ناجائز کاروبار اور اسے دہشت گردی کے لئے استعمال کرتے تھے۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس:

کونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ سے اطلاع ملی تھی کہ جگلوٹ تھانے کو مطلوب اشتہاری مجرم مسمی علاج اعظم ولد جلو گھر میں موجود ہے۔ CTD چھاپہ مار ٹیم نےانسپکٹر نبی ولی کی سرکردگی میں مذکوره گھر میں آپریشن کیا۔

دونوں کے بیانات جہاں تضاد پایا جاتا ہے وہیں ان بیانات سے کچھ وضاحتیں طلب ہیں اور سوالات بھی پیدا ہورہے ہیں۔

وزیراعلٰی صاحب نے جہاں دہشت گردی کا لیبل لگایا وہیں یہ بتانا بھول گئے دہشت گرد کون تھا اور کب انہیں دہشت گرد قرار دیا جاچکا تھا۔ وزیراعلٰی نے جب یہ کہا کہ یہ لوگ بھاری اسلحے کا ناجائز کاروبار کرتے ہیں وہیں یہ بتانا بھول گئے کہ آپریشن کے بعد کتنی تعداد میں اسلحلہ برآمد ہوا۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس کے بیان پر نظر ڈالیں تو اس پر بھی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

سی۔ٹی۔ڈی پولیس کے مطابق علاج اعظم کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا گیا لیکن یہاں یہ بتانا بھول گئے کہ آپریشن کے بعد علاج اعظم کہاں ہے؟ اتنی پلاننگ کے تحت کی جانے والی کاروائی کے بعد علاج اعظم گرفتار کیوں نہ ہوسکے۔ سی۔ٹی۔ڈی پولیس یہ بتانا بھول گئی کہ گھر میں موجود مرنے والے دو افراد انکو مطلوب نہیں تھے تو کیوں مارا؟ سی۔ٹی۔ڈی پولیس اپنے بیان میں یہ وضاحت کرنا بھول گئی کہ سی۔ٹی۔ڈی کے مرنے والے اہلکار پر فائرنگ کس نے کی۔ پولیس کی وضاحتی بیان میں یہ بات بھی سامنے نہیں آئی کہ آپریشن کے دوران کراس فائرنگ کا تبادلہ ہوا یا نہیں۔ سارے حقائق سے پردہ ڈالنے سے گلگت بلتستان پولیس کی ناقص پالیسی کھل کر سامنے آئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں