منگل، 11 اگست، 2020

 اصل حکمران ضلعی راجے ہیں! بیچارے لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں فلاں پارٹی کی حکومت ہے!

میاں غفار

 اصل حکمران ضلعی راجے ہیں!

====================

بیچارے لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں فلاں پارٹی کی حکومت ہے!


 پیارے پڑھنے والے! میں آج آپ کی توجہ ایک بہت اہم اور ضروری مسئلہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں جب سے پاکستان بنا ہے‘ حکومتیں تبدیل ہوتی آئی ہیں یعنی حکمرانوں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ آج کل کنٹینرپر کھڑے ہو کر تقریریں کرنے والا عمران خان ملک کا چیف ایگزیکٹو ہے‘ اُس سے پہلے مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی‘ قبل ازیں آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی حکمران تھے‘ اُس سے بھی پہلے بی بی بینظیر حکومت میں تھیں اور اُس سے بھی پیشتر پرویز مشرف حکمران ہوا کرتے تھے‘ اُن کی حکومت کے تین سال بلا شرکت غیرے گزرے پھر وہ مسلم لیگ ق کو لے آئے اور بذریعہ چودھری شجاعت حسین‘ شوکت عزیز ہمارے حکمران بنے‘ اُس سے بھی پہلے ضیاءالحق حکمران تھے‘ اُن سے پہلے بھٹو صاحب‘ اُن سے قبل یحییٰ خان اور اُس سے پہلے ایوب خان کے 10 سال اور اُن سے پہلے تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد بہت سارے سیاستدان جو ایک ایک کر کے آتے رہے اور ذلیل و رسوا ہو کر جاتے رہے۔ یہی پاکستان کی تاریخ ہے لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں! کیا واقعی یہی لوگ حکمران تھے؟ کیا انہی کا حکم چلتا تھا؟ کیا یہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے؟ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے ایک بہت مشہور شعر یاد آ رہا ہے۔

سب لوگ جدھر وہ ہیں اُدھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

سو پیارے پڑھنے والے! آج میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اصلی حکمرانوں کا چہرہ دکھاﺅں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کو کتنی جھڑکیاں پڑی تھیں کہ اُن سے آرمی چیف کی مدت ملازمت کے سلسلے میں ایک خط کی صحیح عبارت نہیں بن سکی تھی پھر بڑا شور مچا لگتا تھا پتہ نہیں کون کون فارغ ہو جائے گا لیکن اصل حکمرانوں میں سے ایک چپڑاسی بھی فارغ نہیں ہوا کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو دراصل تاجِ برطانیہ جو یہاں سے چلا گیا‘ اُس کے وارث ہیں۔ ایک زمانے میں جنرل پرویز مشرف سے یہ غلطی ہو گئی کہ اُس نے سوچا رکن اسمبلی یا سینٹر بننے کے لئے بھی کچھ تعلیم ہونی چاہئے‘ اُس ترمیم کا کیا حشر ہوا تھا؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ ہمارے بظاہر اصلی حکمرانوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تعلیم کی شرط اُڑا دی۔ یہ شرط عمران خان کی حکومت میں بھی نہیں ہے۔ آج سرکاری نوکری میں چپڑاسی بننے کے لئے میٹرک پاس ہونا لازمی ہے مگر ایم پی اے ایم این اے یا سنیٹر بننے کے لئے ایسی کوئی شرط موجود نہیں! کوئی بھی انگوٹھا چھاپ آدمی ہماری سینٹ یا اسمبلیوں کا ممبر بن سکتا ہے اور یہ سازش ہمارے اصل حکمرانوں کی ہے وہ جنہیں انگریز جاتے ہوئے اقتدار سونپ کر گیا تھا۔ انہیں زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہیں چاہئے پھر بات بات میں اُن سے مشورہ کون کرے گا؟ میں نے 50 برس سے زیادہ اپنی صحافتی زندگی میں بڑے بڑے وزیروں اور طرم خانوں کو سیکرٹریوں کے کمروں کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ فیوڈل سوسائٹی میں نیم جاہل عوامی نمائندے ہاتھ باندھے سیکرٹری کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں‘ جناب! اُس کام کا کیا کرنا ہے؟ پھر سیکرٹری پوچھتا ہے کیا چاہتے ہو اور جو جواب ملتا ہے۔ سیکرٹری کہتا ہے فکر نہ کرو ایسی ہی سمری بن جائے گی یہ اُردو زبان والی بیچاری فاطمہ قمر ایک سادہ لوح عورت ہے’ وہ دس ہزار سال اور زندہ رہے اور اُردو زبان کا نفاذ کرانے میں کامیاب بھی ہو جائے تواُس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ اصل اقتدار کیا ہوتا ہے؟ اور زبان کا اس میں کوئی رولا نہیں! اُس غریب کو تو اِتنا بھی پتہ نہیں کہ جس اُردو کے لئے وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتی ہیں‘ اس ملک کے انگریزی سکول اُسے ایک مدت سے دیس نکالا دے چکے ہیں۔ نئی نسل اُردو پڑھنا نہیں جانتی‘ وہ اُردو اخبار سے ناواقف ہے۔ وہ رومن میں اُردو لکھتی ہے جیسے ٹیلیفون پر ایس ایم ایس لکھتے ہیں۔ فاطمہ قمر کے تو فرشتوں کو پتہ نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟

میری اچھی بی بی انگریز بہت کم تعداد میں پاکستان آیا تھا اور اُس نے اکثریت پر حکمرانی کرنے کے لئے حاکموں کی ایک فوج تیار کی تھی اور اپنی آسانی کے لئے اُسے انگریزی سمری پر لگا دیا تھا بس 70 سال سے وہی سمریاں چل رہی ہیں‘ یہ ہےں اصل حکمران جنہیں انگریز نے تیار کیا تھا‘ انگریزی پڑھائی تھی‘ انگریزی لکھائی تھی‘ سمری بنائی اور نوٹنگ کی تعلیم دی تھی اور اِس لئے دی تھی فاطمہ بی بی کہ جہلا کو پتہ نہ چلے کہ صاحب نے کیا آرڈر کیا ہے؟ اب بیچاری فاطمہ بی بی لکیر پیٹ رہی ہے کہ اُردو نافذ ہو گیا تو پاکستان بچ جائے گا۔ کون سی اُردو؟ فاطمہ بی بی! وہ جسے کوئی پڑھتا نہیں جس کے اخبارات کی تعداد سکڑتی جا رہی ہے اور جسے عام کرنا اِس لئے اصلی حکمرانوں کے لئے مشکل ہے کہ وہ کوڈورڈ میں نوٹنگ کرتے ہیں تا کہ کسی کو پتہ نہ چلے! کیا عدالتوں میں جو آرڈر ہوتے ہیں وہ پڑھے جا سکتے ہیں؟ کیا سیکرٹری صاحبان جو سمری بناتے ہیں؟ اُسے کوئی پڑھ سکتا ہے حالانکہ بفضل تعالیٰ اُن سیکرٹریوں کی اپنی انگریزی بھی اتنی اچھی ہے کہ صرف آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے مسئلہ پر عمران خان کی حکومت کے روزانہ کان پکڑوائے جاتے تھے۔

جناب! آپ سمجھتے ہیں یہ اسمبلیوں کی حکومت میں پارٹیوں کی حکمرانیاں ہیں‘ اُن نیم خواندہ ارکانِ اسمبلی کو کیا پتہ اصل حکمرانی کہاں پھنسی ہوئی ہے؟ اصل حکمران چیف سیکرٹری ہے‘ آئی جی ہے۔ مختلف محکموں کے سیکرٹری ہیں’ کمشنر ہیں‘ ڈپٹی کمشنر ہے‘ ڈی آئی جی حضرات‘ ایس پی صاحبان ہیں‘ اسسٹنٹ کمشنر صاحبان ہیں۔ یہ ہیں جن کے سامنے کسی رکن اسمبلی کی نہیں چلتی اور وہ منہ میں گھنگنیاں ڈالے سفارشی لہجے میں افسروں کی منتیں کرتے پھرتے ہیں! انگریز چلا گیا مگر اپنی کلاس چھوڑ گیا۔

میں یہ لکھ چکا ہوں اور کتابوں کے اقتباس پیش کر چکا ہوں کہ برطانوی ہندوستان میں جو انگریز کسی بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا تھا جب ہندوستان اور پاکستان بنے تو حکومت انگلستان نے سب سے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ اُن گوری چمڑی کے افسروں کوواپس انگلستان میں سرکاری نوکری نہ دی کیونکہ انگریز جانتا تھا کہ انہیں تربیت سدھائے ہوئے غلاموں کی ڈانٹ پھٹکار کر دی گئی تھی‘ انگریز اُن فرعونوں سے اپنے ملک میں حکومت نہیں کروانا چاہتا تھا کیونکہ وہاں تو آزادیاں ہیں‘ شہری آزادیاں بھی اور قانون کی بھی لہٰذا جو گندگی بیوروکریسی کی شکل میں انگریز یہاں چھوڑ کر گیا تھا اُسے ہم نے سینے سے لگا کر رکھ لیا‘ کیا آپ کے خیال میں بزدار صاحب کی پنجاب میں حکومت ہے؟ کیا مراد علی شاہ سندھ میں حکمران ہے؟ کیا خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ حقیقی حکومت چلا رہے ہیں؟ اگر آپ یہی سمجھتے ہیں تو مجھے بڑی معذرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ نرم سے نرم الفاظ میں انتہائی سادہ لوح اور بھولے آدمی ہیں! بیوروکریسی پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے وہ سمریاں بنانے کا فن جانتی ہے‘ انہیںپتہ ہوتا ہے کہ شراب کا ٹھیکہ فور سٹار ہوٹل کو کس قانون کے تحت دیا جا سکتا ہے؟ لہٰذا وزیراعلیٰ صاحب سے جو بھی دستخط کروائے جاتے ہیں ‘اُن کے لئے وہ صرف صلواتیں سننے کے لئے اسلام آباد کا دورہ کرتے ہیں ورنہ یہ اضلاع میں حکومت کس کی ہے؟ ملتان کی ایک اسسٹنٹ کمشنر اتنی پاورفل ہوتی ہے کہ اُس کا کلرک 15 ہزار روپے لے کر اچھی نسل کا بڑھیا بکرا خریدنے عید سے پہلے منڈی جاتا ہے اور پھربکرے بیچنے والا چیختا رہتا ہے کہ میں نے خود یہ بکرا 30 ہزار میں خریدا ہے اور 35 سے کم میں نہیں بیچوں گا مگر عمران خان اور بزدار صاحب کی حکومت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کو 15 ہزار کا وہ بکرا مل جاتا ہے جس کی قیمت بازار میں 32 ہزار روپے ہے بکرے بیچنے والا چیختا ہے تو سرکاری اہلکار اُسے کان سے پکڑ کر ملتان کی شہری حدود سے باہر لا کر لاہور والی سڑک پر ڈال دیتے ہیں کہ جا جو چاہتے ہو کر لو اُسی ملتان میں ایک افسر نے جس کا تربیتی کورس سر پر آیا ہوا تھا‘ اُس سال کے لئے یہ تربیتی کورس چھوڑ دیا حالانکہ اُس سے اُسے ترقی مل سکتی تھی مگر اس نے ترقی کو چاٹنا تھا‘ میرے بھائی! اُس نے عید کمانی تھی‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان سے آنے والے ٹرکوں پر جو بکرے لدے ہوئے ہوتے تھے انہیں روک لیا جاتا تھا ایک سرکاری بندہ بکرے گنتا تھا۔ فی بکرا2 ہزار کا نذرانہ پیش ہوتا تھا تو ٹرک کو ملتان کی شہری حدود کو کراس کر کے لاہور والی سڑک پر جانے کی اجازت ملی تھی۔ یہ ہر ضلع میں 70‘70 کنال اراضی پر قابض وسیع و عریض کوٹھیوں میں رہنے والے” رجواڑے“ اِس ملک کے اصل حاکم ہیں۔ سیاستدان اُن کے خوشہ چین ہیں اور جب فوجی حکومت آتی ہے تو اُن کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کہ بیورو کریسی اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں خوش ہیں کہ فلاں کی حکومت ختم ہو گئی اور ہماری آنے والی ہے حالانکہ جن کی حکومت آنے والی ہے وہ بھی یہیں ہیں اور یہ نیم خواندہ فیوڈل سوسائٹی کے لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ حکومت میں آنے والے ہیں حالانکہ حکومت انہی چہروں کی ہے جن کو تربیت دے کر انگریز یہاں چھوڑ گیا تھا کہ غلاموں کو کیسے چلانا ہے؟ 90 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں حالانکہ 99 فیصد لوگ غلام کے غلام ہیں اور اپنے اصل آقاﺅں کے سامنے بھیڑ بکریوں کی طرح سر جھکائے کھڑے ہیں !کتنے دعوے کرتا تھا عمران خان کہ میں یہ کر دوں گا‘ وہ کر دوں گا! فی الحال تو اُس سے افسر قابو نہیں آ رہے جہاں جس کو لگاتا ہے‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ بلنڈر کر کے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ یہاں کوئی پارٹی نہیں! حکومت اُن 70‘70 کنال کے محلوں میں رہنے والوں کی ہے اور کلف لگی ہوئی وردیوں والے بھی اس بات سے ناواقف ہیں کہ جن انگریز افسروں کو انگلستان میں قبول نہیں کیا گیا ان کی معنوی اولادوں کو ملک پکڑا دیا گیا‘ وہ جس کو چاہتا ہے ذلیل کرواتا ہے جس حکومت کا چاہتا ہے منہ کالا کرواتا ہے جس نیک نام کو بدنام کرنا چاہتا ہے‘ اُس کے منہ پر کالک مل دیتا ہے۔

سو پیارے پڑھنے والے! چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان کے لئے ایک نیا سروس سٹرکچر بنایا جاتا جو اُن افسروں کو سکھاتا کہ یہاں واقعی پبلک سرونٹ چاہئے جبکہ ہمارا پبلک سرونٹ توآقا ہے بلکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اُس کے لئے پانی بھرنے میں جتنی جلدی اس حقیقت کا علم پاکستان کے لوگوںکو ہو جائے‘ اتنا ہی اہل پاکستان کے لئے حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہو گا کیونکہ ہم تو غلام ابن غلام ہیں اور ہم تو کیا ہمارے حکمران خواہ سول کپڑوں میں ہوں یا فوجی کپڑوں میں‘ وہ بھی اُسی ڈھانچے کے ماننے والے ہیں‘ معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا جب ضلع اور ڈویژن کے حقیقی راجاﺅں اور مہاراجوں سے ہماری جان چھوٹے گی؟

٭٭٭

بشکریہ: روزنامہ خبریں گروپ ٗ 8 اگست 2020ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں