اتوار، 11 اکتوبر، 2020

ہنزہ۔ کہ یہ احتجاج برائے بغاوت نہیں بلکہ احتجاج برائے مزاکرات تھا ہندوستان کی خواہش یہ ہوگی کہ مزاکرات نہ ہوں بلکہ گولیاں چلیں تاکہ اپنے حریف کے خلاف انگلی اٹھانے کیلئے موقعہ مل سکے زلفیقار علی برچہ

 


زلیقار علی برچہ کا پوسٹ  دھرنے کا مزاکرات پر 

وٹس ایپ,فیس بک,انبکس کے ذریعے مجھ سے مخطلف سوالات پوچھنے والے دوست احباب کیلئے عرض ہے!

 

کہ یہ احتجاج برائے بغاوت نہیں بلکہ احتجاج برائے مزاکرات تھا 

اور مزاکراتی ٹیم میں ہنزہ بھر سے چن چن کر جعید علما, معروف قانون دان, اور دیگر سیاسی و سماجی اکابرین کو شامل کیا گیا تھا جو کہ اس دھرنے میں شامل تھے. 

انہوں نے تمام قانونی سیاسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوے ریاست کے سات ایک تحریری معاہدہ کیا ہے جس میں مختصر عرصے میں تمام اسیران کو بلا شرطو شروط رہا کرنے کک یقین دہانی کرائی گئی ہے کیونکہ جو دفعات لگے ہیں وہ تین ہیں اور مخطلف عدالتوں میں ہیں اس لئے تمام اسیران کو ایک دن میں رہا کیا جانا ناممکن ہے 

لہزا ہمارے رہنماوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو کر تمام اسیران رہا ہو جائینگے.

اب ہندوستان کی خواہش یہ ہوگی کہ مزاکرات نہ ہوں بلکہ گولیاں چلیں تاکہ اپنے حریف کے خلاف انگلی اٹھانے کیلئے موقعہ مل سکے جبکہ ہماری خواہش یہ تھی کہ ریاست سے احتجاج کے ذریعے مزاکرات ہوں اور مزاکرات کے ذریعے ہمارے مطالبات پورے ہوں اور ہو جائنگے بس کچھ دنوں کی بات ہے اگر معاہدے پہ عمل در آمد نہیں ہوا تو پھر سے دھرنا دینے کا حق ہم محفوز رکھتے ہیں..

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں