شیر علی صحافی کالم نگار |
مکالمہ
عبوری آئینی صوبہ یا یکطرفہ ایک نیا عمرانی معاہدہ۔
صوبہ آئینی طور پر ہوتا ہے یا پھر ہوتا ہی نہیں
گلگت بلتستان ائینی تشخص کے لئیے خطے کی تمام سیاسی مزہبی لسانی جغرافیائی علاقائی اکائیوں کو مل بیٹھ کر مشترکہ قومی بیانیہ کو فروغ دینا لازم ہے ایک ہی قومی بیانیہ کو اپنا کر جدوجہد کو اگر فروغ نہ دیا گیا تو وفاق میں شنوائی نہیں ہوگی اور اج اس اہم حساس معاملہ پر بھی مخصوص ایجنڈوں کو فروغ دیا گیا تو پھر یاد رکھیں اپ کے اس طرز عمل سے اپ کو وقتی فوائد تو مل سکتے ہیں مگر خطے کا مستقبل کا تعین مصلحتوں کے نظر ہوگا۔
قومی بیانیہ ہی وقت کی اہم ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کے کارکنان پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ اپنے قائدین کو قومی بیانیہ کے لئیے مجبور کریں وہی پر اہل قلم بھی اپنی تحریوں سے عوام میں قومی بیانیہ کو اپنانے کی اہمیت واضح کرے۔
خطے میں موجود سیاسی مزہبی سماجی اکائیوں سے میں مخاطب ہوں میں اپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وقت کا مئورخ نہ ہی مصلحتوں کا شکار رہتا ہے اور نہ ہی طاقتوروں کا ہمنوا آج اگر اپ نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہ کیا تو یہی وقت کا مئورخ اپ کے اج کے کردار سے اپ کی نسلوں کو شرمسار کریں گا
صوبہ آئینی ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا
یہ عبوری آئینی یہ صرف نظریہ ضرورت کی پیداوار اسے ایک نیا عمران معاہدہ ہی کہا جاسکتا ہے جس کی سضاحت ابھی تک حکمران طبقے کی جانب سے نہ ہی پیش کی گئی اور نہ ہی تحریر میں لائی گئی
اگر مکمل آئینی صوبہ نہیں بنایا جاسکتا ہے تو ہھر آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ یا اسی متنازعہ حیثیت میں بااختیار کیا جائے۔
علی شیر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
کمنٹ ضرور کریں