جمعہ، 18 ستمبر، 2020

گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کا نواحی علاقہ تھور داس کے مقام پر اس حوالے سے عوامی سطح پر پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے




چلاس (نمائندہ خصوصی) گلگت بلتستان اور خیبر پختون خواہ کا حدود تنازعہ حل نہ ہونے اور دیامر بھاشاڈیم میں زیرآب آنے والی بسری سے لے کر دیامر بھاشاڈیم سربند تک کے زمینوں کے معاوضوں کی عدم ادائیگی پر متاثرین دیامر بھاشا ڈیم/تھور کے عوام میں تشویش میں اضافہ ہونے لگا۔ گلگت بلتستان کا ضلع دیامر کا نواحی علاقہ تھور داس کے مقام پر اس حوالے سے عوامی سطح پر پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں دیامر بھاشا ڈیم کے حق میں نعرے لکھے گئے تھے اور ساتھ ہی اپنے حقوق کے مطالبات بھی درج تھے۔ مظاہرین نے کہا کہ گلگت بلتستان کا ضلع دیامر تھور اور خیبر پختون خواہ کا ضلع کوہستان ہربن کے مابین حدود تنازعہ   


حل کیا جائے۔ 

مظاہرین نے ہربن کے عوام کی جانب سے شدت پسندی کو فروغ دینے پر ریاستی اداروں سے انکی  گرفتاری کرکے قانونی کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مظاہرین نے کہا کہ بھاشا پل تک گلگت بلتستان کا حدود ہے جو صدیوں سے دیامر کا حدود کہلایا گیا ہے۔ بسری سے لے کر دیامر بھاشاڈیم سربند تک کی دیامر بھاشا ڈیم کی میں زیرآب آنے والی زمینوں کی تمام ادائیگی دیامر تھور کے عوام کو کیا جائے۔ اب تک ادائیگی نہ ہونے پر عوام میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے۔ حدود تنازع کی آڑ میں ہربن کے شدت پسند لوگ گلگت بلتستان کو ملنے والے مراعات غضب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ احتجاجی مظاہرین نے حکومت سے زمینوں کے معاوضوں کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کردیا ہے۔ یاد رہے تھور ہربن حدود تنازعہ دیامر بھاشاڈیم میں زیرآب آنے والی اراضی کی پیمائش کا آغاز ہونے ہربن بھاشا کے عوام کی جانب سے دعوی کیا گیا۔ اس سے قبل یہ علاقہ دیامر تھور کے عوام کے زیر قبضہ رہا اس علاقے کی بھیڑ بکریوں اس حدود کے چراہ گاہ میں رکھا


جاتا تھا جہاں تھور کے عوام کے چوراہے رہا کرتے تھے۔

 اس سے قبل حکومت کی اجازت کے باوجود ہربن کے عوام نے اعلان کے ساتھ تھور کے جنگلات سے کٹی ہوئی عمارتی لکڑی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرف لے جانے پر غنڈا ٹیکس لینے کی کوشش کی جس کی وجہ سے دیامر میں کروڑوں مالیت کی عمارتی لکڑی سڑنے کا شدید خطرہ لاحق ہوا تھا تاہم حکومتی سطح پر ہربن کے عوام کو بھی لگام نہ دیا جاسکا۔



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں