جمعہ، 18 ستمبر، 2020

روٹی مہنگی تو عزت سستی۔ کارِ جہاں ... میاں غفار احمد!

 



"روٹی مہنگی تو عزت سستی

 (کارِ جہاں) ... میاں غفار احمد!

اگر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ ووٹ اُس کے نام‘ شخصیت‘ کردار‘ حسن وجمال یا اس کی سماجی حیثیت پر ملے ہیں تو وہ یہ غلط فہمی اپنے دل سے نکال دے کہ انہیں ووٹ ریاست ِمدینہ کے نام پر ملا ہے۔ اُس کا ڈیزائنر اور تخلیق کار وہی ہوسکتا ہے جس نے 1970ء میں تحریک ِنظام مصطفی کا ڈیزائن کیا تھا اور اُس قسم کی تخلیق کار ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ ہوتی ہے جو برسوں قائم رہتی ہے البتہ اُس کے ڈیزائنر آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تحریک ِنظامِ مصطفی سے عوام کو کچھ ملا اور نہ ہی موجودہ ریاست ِمدینہ سے ملنے کا امکان ہے۔

موجودہ حکومت کو ووٹ ریاست ِمدینہ کے نام پر پڑا اور لوگ پولنگ سٹیشنوں پر اُسی ریاست ِمدینہ کا خواب دل میں سجائے ووٹ ڈالنے گئے جو خلفائے راشدین کے دور میں تھی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ریاست ِمدینہ کے نام پر اُن سے کتنا بڑا دھوکہ ہورہا ہے؟ ریاست ِمدینہ کے نام پر ووٹ لینے والے بالکل بھول چکے ہیں کہ اُس نعرے کی روشنی میں وہ عوام کو ہی نہیں ریاست ِمدینہ کے حقیقی تخلیق کار آقائے دوجہاں خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کو بھی جوابدہ ہیں۔ یہ دھوکہ محض عوام کو نہیں بلکہ خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی تعلیمات کو بھی دھوکہ دیا جارہا ہے۔ اُس ریاست ِمدینہ کے دعوےدار تیاری کرلیں‘ اصل سوال جواب تو وہیں ہونے ہیں۔

جناب وزیراعظم! آپ کا دھوکہ کسی شخص یا قوم سے نہیں بلکہ اُس آفاقی تخلیق کار سے ہے جو اس کائنات کا مالک ہے اور اُسی کے سامنے جناب نے موجودہ ریاست ِمدینہ کے اعمال لے کر پیش ہونا ہے۔

گزشتہ 2سال میں صورتحال یہ ہے کہ کوئی سرکاری آفیسر 11 بجے سے پہلے دفتر نہیں آتا اور سرکاری اداروں کے سربراہوں کے دفاتر 3 بجے اُس وقت کھلتے ہیں جب نچلا عملہ اپنا کام ختم کرکے گھروں کو جارہا ہوتا ہے۔ ذرا یہ معلوم کرلیں کہ کس صوبے کا سیکرٹری داخلہ پچھلے 33 دن سے 2 دن کی چُھٹی پر ہے‘ نہ ہی انہوں نے چُھٹی میں توسیع لی‘ نہ اپنی ڈیوٹی پر آئے اور نہ ہی انہیں کوئی پوچھنے والا ہے؟ جناب وزیراعظم! ذرا چاروں صوبوں کے سول سیکرٹریٹ میں مختلف محکمہ جات کے سربراہان کی حاضری چیک کرلیں‘ آپ کو سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ ایک دن کے لئے ٹائیگر فورس کے ذریعے خاموشی سے دن کے 11 بجے 2 بجے اور 3 بجے اپنے افسران کی دفتر میں موجودگیاں تو مانیٹر کرالیں گورنس کا پول کھل جائے گا۔ کبھی ہیلی کاپٹر سے اُتر کر پاکستانی شاہرات پر سفر کریں جو آپ شکار کے ایام میں کیا کرتے تھے‘ کسی ڈھابے پر بیٹھ کر سادہ سا کھانا کھالیں۔ خدارا! آج بھی وہی سفر کرکے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں کہ ٹرک ڈرائیوروں کے ہوٹلوں پر 300 روپے کی دال کی پلیٹ کے اردگرد 4 افراد ہاتھ میں روٹیاں پکڑے تھوڑی سی دال اور چند گھونٹ پانی سے روٹی کو نرم کرکے پیٹ کی دوزخ کو ٹھنڈا کررہے ہوتے ہیں۔

ملک امریکہ میں ٹرک ڈرائیوروں کے حوالے سے ایک معروف جملہ لکھا بولا اور سرکاری سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے جس جملے کا ترجمہ کچھ یوں ہے ”ہر چیز جو تمہارے ہاتھ میں ہے‘ ایک ٹرک ڈرائیور کی بدولت ہے“ اور یہاں آپ کی اسلامی ریاست میں ایک ٹرک ڈرائیور جب سامان لے کر چلتا ہے تو اسے ہر چیک پوسٹ پر حکومتی اہلکاروں کو کتنا بھتہ دینا پڑتا ہے؟ ٹوٹی سڑکوں پر اس کے ٹرک اُلٹتے ہیں‘ وہ جنگلوں پر سنگلاخ پہاڑوں میں خراب اور اُلٹے ٹرک کو مرمت کرانے کے لئے کئی کئی دن چنے اور پانی سے گزارا کرتا ہے۔ مسافروں بارے دین میں احکامات کیا ہیں؟ ذرا یہ بھی پڑھ لیں اور پھر خود احتسابی کریں۔ کہاں گئے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس؟ اور کہاں گئی حکومتی مشینری؟ کون اشیاءکی قیمتیں طے کرتا ہے؟ کیا آپ کی ریاست ِمدینہ میں کبھی ہوٹلوں کے کھانے کی قیمت کبھی مقرر کی گئی ہے؟ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ دورانِ سفر سڑک کنارے ایک قصبے کی چھوٹی سی پرچون کی دُکان پر میں بھوک مٹانے کے لئے بسکٹ کا پیکٹ لینے رُکا تو دُکاندار اور ایک بوڑھی خاتون کے درمیان مکالمہ جاری تھا۔ اُس خاتون کے ہاتھ میں  50 روپے کا ایک اور دس روپے والے پانچ نوٹ تھے مگر دُکاندار اُسے ڈیڑھ کلو آٹا نہیں دے رہا تھا اور یہ واقعہ اُس علاقے کا ہے جہاں پر گندم وافر اُگتی ہے۔ ڈرنے والے تو دریائے دجلہ کے کنارے پر بُھوکے کتے کے مرنے سے بھی کانپ جاتے تھے۔ آپ اُس طرح کی لاکھوں بوڑھی ماﺅں کا روزِمحشر کیسے سامنا کریں گے؟

”کسی دانشور کا قول ہے ہے کہ جب روٹی مہنگی ہوجائے تو عزت سستی ہوجاتی ہے“ اور جناب وزیراعظم! روٹی مہنگی ہوچکی ہے‘ آگے آپ خود سمجھدار ہیں اور یہ بات بھی ذہن میں رکھئے کہ میرے پاک پیغمبرﷺ نے غربت سے پناہ مانگی! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس گھر میں ایک دروازے سے غربت داخل ہوتی ہے تو وہاں دوسرے دروازے سے عزت باہر چلی جاتی ہے اور جناب وزیراعظم! گزشتہ دو سال میں آپ نے صرف غربت ہی بانٹی ہے۔ حکومت ہی کے لوگ ہیں جنہوں نے گندم ذخیرہ کررکھی ہے اور آپ کی صوبائی حکومت کے ایک سابق وزیر نے اپنی نگرانی میں گندم کی سمگل کرائی۔ کیا کبھی آپ نے پوچھا؟ پنجاب کے محکمہ خوراک نے گندم کی خریداری میں 3ہفتے کی تاخیر کرکے سمگلروں کو دھڑا دھڑ گندم خریدنے کی سہولت کیوں دی؟ آپ نے اُس پر کیا ایکشن لیا؟ رپورٹ مانگی؟ مگر آج تک اُس وزیر کو سزا اور جزاء کے عمل سے نہیں گزارا گیا۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ بہت بہادر وزیراعظم ہیں اور کروڑوں آہوں اور سسکیوں کا مقابلہ کرنے اور جواب دینے کی یقینا آپ نے تیار کر رکھی ہوگی اور ایسا کوئی بہادر ہی کرسکتا ہے۔

٭٭٭

بشکریہ میاں غفار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں