ہفتہ، 19 ستمبر، 2020

گلگت ۔ ایکزیکٹیو آرڑر کے بجاٸیے جی بی کو مکمل اختیارات دٸیے جاٸیے احسان علی ایڈوکیٹ





گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات اور محنت کش طبقے کا          نقطہ نظر                 

-----------------------------------------------------------------------------

تحریر ایڈوکیٹ احسان علی        ------- 

             گلگت بلتستان میں جی بی آرڈر 2018ء کے تحت اگست کے وسط میں منعقد ھونے والے انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کئیے گئے ہیں مگر موجودہ اور سابقہ حکمران پارٹیوں پی ٹی آئی ، نون لیگ اور پی پی پی کے متوقع امیدواروں کی انتخابی مہم جاری ھے یہ حقیقت اب  جی بی کے عوام پر آشکارا ھو چکا ھے کہ یہ ایک کنٹرولڈ اسمبلی ھے عوام کے منتخب نمائندوں کی بنائی ھوئی ایک آئین کے بجائے اسلام آباد کی سرمایہ دار ریاست کی طرف سے  ٹھونسی گئی ایک ایگزیکٹیو آرڈر کی بنیادوں پہ قائم اسمبلی محض ایک بے بس اور بے اختیار اسمبلی ہی ھو سکتی ھے مگر دوسرے روایتی پارٹیوں سے بڑھ کر پی ٹی آئی  جھوٹے اعلانات اور بلند بانگ وعدوں کے زریعے جی بی کے عوام کو سہانے خواب دکھا کر اور دوسرے پارٹیوں سے نام نہاد الیکٹبلز جمع کرکے الیکشن جیتنے کی جتن کر رہی ھے تاکہ محنت کش عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کی اس گہرے دلدل میں پھنستا کر رکھا جا سکے مگر گزشتہ دو سالوں سے ملک کے اندر تباہ کن مہنگائی، بڑھتی ھوئی  بےروزگاری اور 90 فیصد سے زیادہ غریب عوام کو غربت  کی چکی میں پیسنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے خلاف جی بی عوام میں بھی سخت نفرت پھیل رہی ھے 

           جس طرح پاکستان میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں  مختلف مافیاز اور مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہیں بالکل اسی طرح جی بی میں بھی گزشتہ کئی سالوں سے اسمبلی میں یہاں کے موقع پرست بد دیانت اور  سرمایہ دار ریاست کے سہولت کاروں کا قبضہ رہا ھے یہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں 90 فیصد سے زیادہ کچلے ھوئے عوام کے بنیادی معاشی، سماجی، تعلیمی، علاج معالجہ، صاف پانی، روزگار اور سستا انصاف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ثابت ھو چکے ہیں اب تو یہ محض ڈبیٹنگ کلب بن چکے ہیں جہاں محنت کش عوام کے مسائل پہ بحث کرنے کی  بھی اجازت  نہیں۔جبکہ ملک کی تمام تر پالیسیاں کہیں اور  تیار ھوتی ہیں اسی طرح جی بی اسمبلی بھی عوامی مسائل و مشکلات ، غربت و بےروزگاری کے خاتمے، سستا انصاف،  تعلیم اور علاج معالجہ بجلی جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی میں مکمل طور پہ ناکام ھو چکی ھے۔ 

           اس گھمبیر صورت حال سے نکلنے کا بہترین حل تو یہ ھے کہ ان بھانچھ اسمبلیوں کے بے معنی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے  محنت کش عوام اپنی مزاحمتی جدوجہد کے زریعے سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کرکے انقلاب برپا کیا جائے اور ملک کے سارے وسائل دولت اور پیداوار کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیکر مساوی تقسیم کیا جائے مگر محنت کش عوام کو ان اصلاح پسند پارٹیوں اور سرمایہ داروں کی ان اسمبلیوں سے شاید اب بھی کچھ نہ کچھ امیدیں ہیں اس لئے وہ بائیکاٹ کیلئے تیار نظر نہیں آتے پھر ایسی صورت حال میں گلگت بلتستان کے محکوم محنت کش عوام کے سامنے متبادل حل یہ ھے کہ ان انتخابات کے سیاسی عمل سے فایدہ اٹھاتے ھوئے گراس روٹ سطح پہ گاؤں گاؤں قصبہ یونین کونسل تحصیل شہر سطح پہ  مزدوروں غریب کسانوں چھوٹے دکانداروں طالب علموں ٹیچروں، ڈاکٹروں انجینئروں اور دوسرے پروفیشنلز پہ مشتمل عوامی کونسلیں منتخب کیا جائے اور ان کونسلوں کے زریعے حلقہ یا ڈسٹرکٹ عوامی کونسلیں  منتخب کی جائیں ان کونسلوں کے سالانہ انتخابات ھوں ماہانہ اجلاس ھو اور کمزور کارکردگی والے ممبران کو واپس بلوا کر نئے ممبران کونسل منتخب کرنے کا میکنزم ھو نیز حلقے کا یا ڈسٹرکٹ کے منتخب  ممبران اسمبلی اس ڈسٹرکٹ عوامی اسمبلی کے سامنے جوابدہ ھوں اور کسی ممبر اسمبلی کی کارکردگی غیر اطمینان بخش ھونے کی صورت میں  ڈسٹرکٹ عوامی کونسل کو یہ اختیار ھو کہ وہ اس ممبر اسمبلی کو واپس بلوا کر اسکی جگہ نیا ممبر اسمبلی منتخب کرے اسی طرح  ڈسٹرکٹ عوامی کونسلیں ملکے جی بی کی سطح پہ گلگت بلتستان عوامی اسمبلی قائم کی جا سکتی ھے جو جی بی عوام کی حقیقی عوامی منتخب اسمبلی ھو گی جس کی لگامیں حکمرانوں کے پاس نہیں بلکہ محنت کش عوام کے پاس ھو گی ڈسٹرکٹ انتظامیہ پولیس اور مختلف محکموں کے افسران بھی اس ڈسٹرکٹ عوامی کونسل کے سامنے جوابدہ ھوں اور افسران اور عملے کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پہ ایسے افسران کے خلاف انکوائری کرنے اور انہیں معطل کرنے کا اختیار ھو یہی سلسلہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاح اور حلقوں تک پھیلایا جائے تو مقامی عوام بے بس اور یرغمال اسمبلیوں کے زریعے نہیں بلکہ عوام کی طرف سے جمہوری طریقے سے منتخب کردہ ان عوامی کونسلوں کے گراس روٹ لیول سے انقلابی بنیادوں پہ جدوجہد کے ذریعے مسلسل دباؤ ڈال کر ہی ریاستی وسائل دولت کو افسر شاہی کے بجائے عوام کی بنیادی سہولیات اور اجتماعی ترقی پہ خرچ کرایا جا سکتا ھے اور بیوروکریسی پہ عوامی راج قائم کیا جا سکتا ھے یہی منتخب عوامی کونسلیں آگے چل کر انقلاب کے بعد حقیقی مزدور جمہوریت کی بنیاد ڈالنے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

کمنٹ ضرور کریں